سکون تو صرف قبر میں ہے

402

راشد منان
موجودہ دور کے نام نہاد ارسطو اعظم عمران خان نے 8 جون کو اپنے ایک ارشاد میں کیا خوب فرمایا کہ اگر عوام نے کورونا وائرس کوسنجیدہ نہیں لیا تو ملک کو بہت نقصان ہوگا، سب جانتے ہیں ارسطو اعظم کا یہ پہلا یو ٹرن ہرگز بھی نہیں، اسی ضمن میں اگر ان کے گزشتہ ارشادات پر نگاہ ڈالی جائے تو موصوف پہلے اسی کورونا کو وبا نہیں بلکہ ایک عام سا فلو قرار دے کر عوام کو مطمئن اور ملک میں سخت ترین لاک ڈائون کی مخالفت کر رہے تھے، جب کہ ملک کا سنجیدہ طبقہ اور خود ان کی جماعت میں موجود ماسوائے چند ابن الوقت وزراء اور مشیروں کے انہیں سخت لاک ڈائون پر آمادہ کرنے کی تلقین کر رہے تھے مگر انہوں نے اپنی ضد اور انا میں کسی کی نہ سنی اور اب لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کہ مصداق وہی کچھ نہ جانے کس منہ سے کہہ رہے ہیں جو پہلے کہتے ان کی زبان رُک جاتی تھی ۔
اگر دیکھا جائے تو دیگر معاملات کی طرح ارسطو اعظم نے یہاں بھی اس وبا کے پھیلائو کا سبب اوراپنی ناقص اور کنفیوژڈ حکمت عملی کا سارا ملبہ عوام پر ڈال کر خود کو بری الذمہ کر لیا گویا کہ یہ اعلان کر دیا کہ ’’جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا‘‘ تو محترم کے لیے عرض خدمت ہے کہ عوام ان کو ہمارے سروں پر مسلط ہونے سے پہلے بھی جاگ رہے تھے اور جان رہے تھے کہ آر ٹی ایس کیوں؟ کس لیے؟ اورکس کے ایما پر فیل ہوا ؟
اور اب جبکہ وہ اور ان کی ٹیم میں شامل بہت سے جھوٹے ’’خائن‘‘ آٹا، چینی، ادویات، حفاظتی کٹ اور ماسک چور ہمارے سروں پر مسلط ہو چکے ہیں تو بھی جاگ رہے ہیں اور اپنے فرائض منصبی ’’دینی اخوت‘‘ محبت اور خدمت انسانیت سے بالکل بھی غافل نہیں ۔ عوام اور اقوام عالم کو یہ جتانے کی ضرورت بھی نہیں کہ اس موذی وبا میں عوام نے کتنا کام کیااور حکومت وقت نے آئینی ذمے داریاں عوام تک کتنی پہنچائیں؟ ملک میں 2007 کا زلزلہ ہو یا 2010 کے سیلاب کی تباہ کاریاں عوام اس وقت بھی حکومت پر نہ تھے اس کا پورا بھروسا اپنے ربّ اور انحصار ایک جاگتی قوم کی طرح خود پر تھا ۔
ملک بھر میں موجود مخیر افراد، دینی اور فلاحی انجمنیں اس وقت بھی جاگ رہی تھیں اور اب بھی جاگ رہی ہیں۔ حکومتی اور نجی امداد کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو پلڑے کا وزن عوامی امداد کی طرف زیادہ ہی جھکا ہوا ملے گا۔
جب قوم پر ایک بُرا وقت تھا تو اس وقت بھی حکومت عملی اقدامات کے بجائے عوام کو جھوٹے وعدوں اور دعوئوں سے بہلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے وزراء اور مشیر اپنی نوکری بچانے کی غرض سے حکومتی چاپلوسی اور اپنے مخالفین اور نقاد پر جھوٹے من گھرت الزامات کی بوچھاڑ کرتے پھر رہے تھے۔ خود وزیر اعظم اور ان کے ماتحت ادارے عوام کو صحیح راستہ دکھانے کے بجائے کنفیوژ کر رہے تھے۔ نیب مخالفین کے گرد اپنا گھیرا تنگ اور اعلیٰ عدلیہ ہفتہ اتوار مارکیٹ اور مالز کھولنے اور بند کرنے کے دہرے فیصلے کی دلیل یہ دے کر اس عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہی تھی کہ چونکہ ایس او پی پر عملدرآمد نہیں ہو رہا اس لیے اسے بھی یو ٹرن لینا پڑا یعنی یہاں بھی ذمے دار عوام ہی کو ٹھیرا گیا۔
ملک کے علماء اُجڑے چمن کا ذکر کرتے ہوئے زار و قطار رو رہے تھے اور چمن کو اجاڑنے والوں کے حق میں نام لے کر دعائیں کر رہے تھے اور آپ ہی اپنے اعلان پر یو ٹرن بھی کہ کوئی بات نہیں۔ مساجد میں سابقہ ایس او پی کا راج رہے گا اور ہمارے مشترکہ اعلان کہ مساجد پر کسی لاک ڈائون کا کوئی اطلاق نہیں ہوگا کو فی الوقت کسی کونے میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی کہ امسال ماہ صیام کی ساری عبادتیں بجائے مساجد کے گھروں پر ہی ادا کی جائیں گی، ان سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں لوگ اپنا اعتکاف گھروں پر کس طرح کر یں اس پر کوئی گائیڈ لائن جاری کر تے ان کی وکالت حکومتی ایس او پی پر عملدرآمد تک محدود رہی۔
قوم جاگ رہی ہے اور دیکھ بھی رہی ہے کہ کس طرح ایک مشیر اطلاعات بیت المال کی رقم کسی غریب خاتون کو دیتے وقت اس سے یہ سوال کریں کہ آپ کے شوہر بچے پیدا کرنے کے علاوہ اور کیا کرتے ہیں۔ کاش میرے شوہر بھی۔۔۔۔ قوم جاگتی آنکھوں سے اس گورنر کو بھی جانتی ہے جو کسی غریب سے یہ دریافت کر رہا تھا کہ کیا وہ اتنے ڈھیر سارے نوٹ گننا جانتا ہے۔ قوم یہ بھی دیکھ رہی اور محو حیرت بھی ہے کہ ریاست مدینہ کا صدر با ریش وزیر مذہبی امورکے ساتھ ملک کی مساجد میں رات کی تاریکی میں یہ جائزہ لیتا پھرے کہ مذہبی رسومات میں حکومتی ایس او پی کی دھجیاں تو نہیں اُڑائی جا رہی۔ جبکہ اسی تاریکی میں بنت حوا بھوک اور افلاس کے مارے اپنے تن کا سودا اور دوسری جانب اسی تاریکی میں کسی زینب کی عصمت دری ہوتی رہی جس کی چیخیں عرش پر تو سنی گئیں مگر فرش پر کھڑے متکبرصدر کو اس لیے سنائی نہ دی کہ آئین پاکستان کی رو سے وہ ایک اندھا، گونگا اور بہرا شخص ہے جسے ایوان صدر میں قید رہ کر حکومت وقت کے ہر غیر آئینی اقدام کی صرف توثیق کرنا ہوتی ہے اس کے علاوہ اس کا کوئی اور کام نہیں۔
چونکہ لانے والوں کی نیت خالص نہ تھی اور جھوٹ کے سہارے مسند اقتدار پر قبضہ کرایاگیا۔ گدھے کو زیبرا بنانے کی کوشش کی گئی۔ مدینہ کی مقدس ریاست کا نام لے کر اس میں رائج نظام کی پاسداری نہ کی گئی۔ لہٰذا ہر محاذ پر ناکامی ہی ناکامی مقدر بنی داخلہ ہو کہ خارجہ معاشرت ہو یا معیشت سب ہی کا بیڑا غرق ہو گیا ارسطو اعظم اور ان کے بقراطوں کے تمام دعوے ہی جھوٹے ثابت ہوئے۔ نہ اربوں ڈالر آئے اور نہ ہی اسے کسی کے منہ پر مارنے کی خواہش پوری ہوئی اور نہ ہی نیویارک کے میئر کی پاکستانی لاک ڈائون کی تقلید کا خواب پورا ہوسکا۔ وہ جو خود ساختہ اسمارٹ بنے پھرتے تھے وہ قوم کو اسمارٹ لاک ڈائون کا مطلب نہ سمجھا سکے ۔ مرض احتیاط کے باوجود بڑھتا ہی جا رہا ہے اور اب تو WHO نے بھی پاکستان کو کورونا سے نمٹنے میں ناکامی پر ایشیا کا چوتھا خطرناک ملک قرار دیتے ہوئے پنجاب حکومت کو لکھے خط میں اعداد و شمارکیساتھ بتایا ہے کہ لاک ڈائون کے دوران روزانہ 1000نئے کیسز سامنے آرہے تھے جو کہ جزوی لاک ڈائون کے دوران دُگنے ہو گئے اور جب لاک ڈائون ہٹا دیا گیا تو بلاناغہ 4000 نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ غرضیکہ کورونا کی شکل میں ہرطرف موت منڈلا رہی ہے قوم اپنی مدد آپ کے تحت اس سے نبرد آزما ہے، حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی ارسطواعظم اور ان کے تمام بقراطوں کا قوم کے لیے بس یہی پیغام ہے پاکستانیو گھبرانا نہیں سکون تو صرف قبر میں ہے۔ شاید وہ اس بات سے غافل ہیں کہ قبر ان کا بھی انتظار کر رہی ہے وہاں کسے سکون میسر ہوگا اللہ ہی جانتا ہے۔