کشمیر،فلسطین اور روہنگیا مسلمانوں کو بھی یاد رکھا جائے

272

کورونا کے نام پر پوری دنیا میں تمام مسائل نہ صرف پس پشت چلے گئے ہیں بلکہ نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن میں بے روزگاری سرفہرست ہے ۔ دیگر مسائل کے پس پشت جانے کا فائدہ بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو پہنچا ہے جبکہ ان ممالک کے استبداد کے شکار شہری پریشان ہیں کہ انہیں انصاف کیسے اور کب ملے گا ۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت 5 اگست کو ختم کی تھی ، اس سے قبل ہی مقبوضہ وادی میں لاک ڈاؤن کردیا گیا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ، کشمیری ایک وسیع جیل میں بند ہیں جبکہ بھارتی قیادت کشمیریوں کے جذبہ حریت کو دبانے کے لیے روز ہی وہاں پر ایک نیا آپریشن کرتی ہے اور کئی نوجوانوں کو شہید کردیتی ہے ۔ سنیچر کو بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے چا ربے گناہ کشمیری نوجوانوںکو شہید کردیا ۔ مقبوضہ وادی میں اسلام آباد کے علاقے لالن میں سرچ آپریشن کے نام پر درجنوں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا اور قیمتی املاک کو لوٹ لیا گیا ۔ کچھ یہی صورتحال فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کی ہے ۔ کورونا کے باعث دنیا کا کاروبار زندگی منجمد ہوگیاہے مگر اسرائیل کی توسیع پسندانہ منصوبوں پر زور شور سے کام جاری ہے ۔ روز ہی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کردیا جاتا ہے ، فلسطینیوں کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں اور نوجوانوں کو بلاجواز گرفتار کرکے لے جایا جاتا ہے اور انہیں شہید کردیا جاتا ہے ۔ اسرائیل کے جبر کا یہ عالم ہے کہ مسجد اقصیٰ کے امام کو تین ماہ کے لیے بیت المقدس میں داخلے سے روک دیا گیا ہے ، اسی طرح بیت المقدس کے کئی محافظوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرکے نئی یہودی بستی تعمیر کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اسرائیلی منصوبے کے مطابق یہودی بستیوں کی تعمیر کرکے اسرائیل کی سرحد کو اردن تک باضابطہ توسیع دے دی جائے گی ۔ اس سے بھی بدتر صورتحال روہنگیا مہاجرین کی ہے ، انہیں بنگلادیشی حکومت نے بے آب و گیاہ جزیرے میں قید کیا ہوا ہے ۔ اب مون سون کا موسم شروع ہوچکا ہے جس کے باعث ہونے والی بارشوں کے باعث وہاں پر دلدلی کیفیت پیدا ہوجائے گی ۔ اقوام متحدہ نے بنگلادیش کی حکومت کو روہنگیا مہاجرین کو مذکورہ جزیرے سے منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی مگر بنگلادیشی حکومت نے اس پر عمل کرنے کی زحمت ابھی تک نہیں کی ہے ۔ ویسے تو کورونا سے قبل بھی کشمیر، فلسطین اور اراکانی مسلمانوں پر ہونے والی ابتلا کے خاتمے کے کچھ نہیں کیا گیا تھا تاہم کورونا کے بعد سے تو ان سب کو کہیں پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور استبدادی قوتوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ جو چاہے کرو ، نہ کوئی شور ہے اور نہ کوئی روکنے ٹوکنے والا۔ اب جبکہ کورونا کی گرد نیچے بیٹھنے لگی ہے ، حکومت پاکستان کو ہی چاہیے کہ دوست ممالک کے ساتھ مل کر کشمیر، فلسطین اور اراکانی مسلمانوں کے بارے میں آواز بلند کرے ۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو حرکت میں لایا جائے اور دنیا کو بتایا جائے کہ ان علاقوں میں بھی انسانی المیہ جنم لے چکا ہے ، جس کے تدارک کی ذمہ داری بھی اقوام عالم ہی کی ہے ۔ اقوام متحدہ کا ادارہ تو اب نشستند ، گفتند اور برخاستند کی حیثیت بھی کھوچکا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان ہی اپنی ذمہ داری کو پہچانے اور دیگر ممالک کے ساتھ مل ان مظلوموں کی داد رسی کے لیے کچھ کرے ۔