یہ تو مقدس چیز بھی تبدیل کردیتے ہیں

305

اس مرتبہ کورونا تھا عالمی حالات سخت تھے۔ معیشت بیٹھ گئی تھی اس لیے بجٹ خسارے کا ہے اور عوام کو ریلیف نہیں دیا۔ پہلے کے بجٹ یوں تھے۔ خطے میں جنگ کے حالات ہیں۔ افغانستان میں جنگ ہورہی ہے، اس کے اثرات ہم پر پڑیں گے۔ عالمی کساد بازاری سے ہم کیسے بچ سکتے ہیں۔ منی بجٹ نہیں آئے گا۔ پھر کہا جاتا ہے کہ لانا پڑے گا۔ یہ کوئی مقدس دستاویز نہیں کہ اس میں تبدیلی نہ ہوسکے اور جرنیلوں، آمروں اور آئی ایم ایف کے نمائندوں سے یہ تکرار بھی سنتے ہوئے وقت گزر گیا۔ نئے والے عبدالحفیظ شیخ ہیں جو پرانے والوں کے مشیر بھی رہے ہیں۔ انہوں نے بھی کہہ دیا کہ بجٹ مقدس نہیں ضرورت کے تحت ردوبدل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور مزے دار بات کہی ہے وہ یہ کہ آئی ایم ایف کے تابع نہیں ہیں پتا نہیں اس معاملے کو کیوں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک تو ہم نے خسارے کے باوجود نئے ٹیکس نہیں لگائے اور پھر ساتھ ہی کہہ دیا کہ ٹیکس نہیں بڑھاتے تو قرضے بڑھ جائیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سالانہ تقریروں اور بیانات کا ایکشن ری پلے ہورہا ہے۔ مشیر خزانہ فرماتے ہیں کہ قرضے عیاشی کے لیے نہیں بلکہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے لے رہے ہیں۔ اچھا تو پچھلے قرضے کیوں لیے گئے تھے۔ اس حوالے سے تو صرف دو برس میں موجودہ حکومت نے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ یقینا پچھلے قرضے اس سے پچھلے قرضوں کو اُتارنے کے لیے لیے گئے ہوں گے۔ ایسا کون سا مشیر خزانہ ہے جو یہ کہے کہ ہاں ہم نے عیاشی کے لیے قرضے لیے تھے اور اب آنے والے اُتاریں گے۔ یہ قرضے پاکستان کی ترقی کے نام پر لیے جاتے ہیں۔ معاشی تباہی سے بچنے کے نام پر لیے جاتے ہیں۔ لیکن پاکستان ترقی کرتا ہے نہ عوام خوشحال ہوتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے شروع ہوتے ہیں لیکن مکمل نہیں ہوتے۔ پھر نیا بجٹ آتا ہے اور نئے قرضے آتے ہیں۔ انداز گفتگو ایسا ہوتا ہے جیسے عوام پر احسان کررہے ہیں۔ ارے بھائی جان چھوڑو عوام کی، اگر بیرونی قرضے لے لے کر ہی ملک چلانا ہے تو پاکستان کے کسی صنعت کار یا برآمدکنندہ کے حوالے ملک کردو اور جائو آئی ایم ایف کی نوکریاں کرتے رہو۔ پاکستانی قوم کے نام پر یہ ڈرامے بازیاں کب تک چلتی رہیں گی۔ مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے تابع نہیں۔ ارے تابع رہنے کی ضرورت کب ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی پوری ٹیم پاکستان میں براجمان ہے۔ تابع تو اس وقت ہوتے جب کچھ ہورہا ہے یعنی اب تو ان مشیروں کو اچھی طرح پتا ہے کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی کیا خواہش ہے۔ لہٰذا وہ اس کے مطابق احکامات جاری کرتے ہیں۔ ملک کا مرکزی بینک اگر عالمی بینک کے باقاعدہ ملازم کے ہاتھ میں ہو تو پھر پاکستانی حکمرانوں کو آئی ایم ایف کے یا عالمی بینک کی ڈکٹیشن پر عمل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہوگی۔ یہ لوگ آئی ایم ایف کے مفادات کے محافظ ہیں، یہ بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں کہ فلاں قرضہ کیوں لیا اور فلاں شرط کیوں قبول کی بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ملک کی زراعت کو تباہ کیا گیا۔ برآمدی صنعت کا بیڑہ غرق کیا گیا کسی عالمی وبا یا معاشی بحران سے نمٹنے کے قابل نہیں چھوڑا گیا۔ ورنہ پاکستان کی زرعی معیشت بڑے بڑے عالمی بحرانوں کا تنہا مقابلہ کرسکتی ہے، لیکن اس معاملے میں بھی عالمی اداروں کی ڈکٹیشن نے تباہی پھیلا رکھی ہے۔ پاکستانی آم، پاکستانی چاول، شکر، پھل، سبزیاں، مرغی، انڈے، مویشی یہاں تک کہ مویشیوں کا چارا بھی اس قدر وافر ہوتا ہے کہ دنیا کو برآمد کیا جاسکے۔ پانی کے ذخائر موجود ہیں، بارش کا پانی ذخیرہ کرکے زراعت کا شعبہ چلایا جاسکتا ہے لیکن ملک پر حکمران طبقہ اپنی سوچ ہی نہیں رکھتا۔ اسے تو عوام جاہل نظر آتے ہیں، باقاعدہ دشمن والا انداز ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستانی عوام ملک دشمن اور حکمران ملک کے خیر خواہ ہیں۔ جہاں تک حفیظ شیخ صاحب کی یہ منطق ہے کہ بجٹ کوئی مقدس چیز نہیں، ضرورت کے تحت تبدیلی بھی کی جاسکتی ہے، اس اصول کے تحت تو ہمارے حکمرانوں نے مقدس ترین قوانین شریعت ہی کو تبدیل کر ڈالا ہے۔ قرآن سود کو منع کرتا ہے یہ سود لیتے ہیں اور سودی نظام چلانے پر مصر ہیں۔ مقدس شریعت کہتی ہے کہ فیصلے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق کرو۔ یہ انگریز کے قانون کے مطابق ملک چلاتے ہیں۔ شرعی قوانین کے بارے میں سب کی یکساں رائے ہے کہ یہ پرانے زمانے کے قوانین ہیں۔ یہ لوگ شرعی حدود کو ظلم اور غیر انسانی قرار دیتے ہیں۔ جو لوگ مقدس چیزوں کو ڈھٹائی کے ساتھ تبدیل کردیتے ہوں ان کے لیے بجٹ، آئین قانون وغیرہ میں تبدیلی کے فیصلے کون سے حیرت کا باعث ہوں گے۔ پاکستانی حکمران بھی اب سوچنا شروع کریں کہ ٹیکس نہیں بڑھاتے تو قرضے بڑھ جائیں گے۔ قرضے نہیں لیے تو ٹیکس لگانے پڑیں گے۔ قرضے نہیں لیے تو پچھلے قرضے ادا نہیں ہوں گے والے جملے قابل قبول نہیں۔ ہمارے حکمرانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں پھر تو یہی سلسلہ چلتا رہے گا۔