صاحبو! عجب صورت حال ہے۔ دنیا بھر میں پٹرول کو خریدار نہیں مل رہے جب کہ پاکستان میں خریداروں کو پٹرول نہیں مل رہا ہے۔ آج اخبار کی سرخی ہے کہ پٹرول کی قلت پر وزیراعظم برہم ہیں۔ ذمے داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت۔ اس خبرسے پٹرول کی دستیابی کی جو تھوڑی بہت اُمید تھی وہ بھی دم توڑ گئی۔ حکومت کی توجہ کا مطلب ہے سوا ستیا ناس۔ چینی پہلے پچاس روپے تھی۔ حکومت نے سبسڈی دی تو 70روپے ہوگئی۔ اس پر تحقیقات ہوئی تو قیمت 75روپے ہوگئی۔ تحقیقاتی رپورٹ لیک ہوئی تو قیمت 80 روپے ہو گئی۔ معاملہ فرانزک رپورٹ تک پہنچا تو قیمت 85 روپے ہو گئی۔ یہ صورت حال وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹ کرنے والوں، من پسند جمہوریت لانے والوں اور سرمایہ داروں کے ناپاک گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہے جو باہم مل کر اپنی تجوریوں کے منہ بھررہے ہیں۔ دفاع ہماری اولین ذمے داری ہے، کشمیر ہماری شہ رگ ہے، سن سن کر کان پک گئے۔ ایک دن کے لیے بھی تو ہم بھارت کو مجبور نہیں کرسکے کہ وہ پاک بھارت لائن آف کنٹرول کو ٹھنڈا رکھے۔ اللہ بھلا کرے چین کا جس نے بھارت کی توجہ لداخ کی طرف کرائی تو چند دن کے لیے لائن آف کنٹرول ٹھنڈی ہوسکی اور ہمارے بے گناہ معصوم شہری بھارتی گولہ باری سے محفوظ رہ سکے اور ہمارے آرمی چیف بھارت کے خلاف بیان بازی کی زحمت سے بچ سکے۔ اشرافیہ کا ایک طاقتور گروپ ہے جو پاکستان پر حکمرانی کررہا ہے۔ پسندیدہ سیاست دان، سرکاری افسران، جنرل اور جج سب ایک دوسرے کے مفادات کے نگران سب ایک دوسرے کے محافظ ونگہبان کارٹل۔ اپنے معمولی فائدے کے لیے،ذاتی یا سیا سی مفاد کے لیے جو ہر گھڑی تیار اور کا مران رہتے ہیں ۔کئی ماہ سے چینی اور آٹا مافیا کے خلاف کتنا شوروغل برپا ہے۔ چینی اور آٹے کی قیمت میں ایک روپیہ کم ہوا؟
پٹرول کے ساتھ ساتھ اندوہناک خبر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے پو لٹری کی قیمتیں بڑھنے کا بھی نوٹس لے لیا۔ پو لٹری کے حلقوں میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی کہ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا ہے اب جم کے قیمتیں بڑھائو۔ پو لٹری وہ شعبہ تھا جہاں دس بیس روپے کے فرق سے قیمتیں ایک ہی جگہ ٹھیری رہتی تھیں۔ اس حکومت کی برکت سے مرغی کی قیمتیں بھی ڈبل ہوگئی ہیں۔ امریکا میں پولیس والے کا گھٹنا ایک جارج فلائیڈ کی گردن پر تھا پا کستان میں حکومت کا گھٹنا ایک ایک شہری کی گردن پر ہے۔ سانس لینا دشوار سے دشوار تر ہوتا جارہا ہے۔ مارچ کے مہینے میں کورونا کا شور ہواتو کہا گیا کہ اس ماہ بجلی کے بل وصول نہیں کیے جائیں گے۔ وہ جن کے دل ودماغ میں حکومت سے خوش فہمی کا معمولی سا عنصر بھی موجود ہے خوش ہو گئے۔ لیکن اگلے دن خبر آئی کہ دو ماہ کے بل اکٹھے وصول کیے جائیں گے۔ اگلے ماہ دومہینے کے بل اکٹھے آئے تو لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔ اس ماہ معاملہ چیخوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی بجلی کے بل بھریں یا بچوں کا پیٹ۔ 1990 اور 2000 کی دہا ئیوں میںمحترمہ بے نظیر بھٹو، ساتھی سیاست دانوں اور شراکت دار سرمایہ داروں نے بھاری منافع، کک بیکس اورکمیشن وصول کرنے کے سلسلے میں نجی شعبے میں بجلی کی پیداوار (آئی پی پیز) کے سپرد کردی تھی۔ بدعنوان شراکت دارتو آج تک بے حد وحساب کمیشن اور کک بیکس کی گنگا میں نہا رہے ہیں لیکن عوام کو جنوبی ایشیامیں سب سے مہنگی بجلی خرید نی پڑ رہی ہے۔ جب اس ظلم کی روک تھام کی کوشش کی گئی تو ہماری عدلیہ آئی پی پیز کی پشت سے پشت ملاکر کھڑی ہو گئی۔ اس لیے آئی پی پیز کو تحفظ دیا گیا۔ کسی کرپٹ اور بدعنوان کو آج تک سزا دیناتو درکنارکٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا۔ کسی مجرم کو آج تک سزا نہیں ہوئی جس نے کمیشن کھاکر عوام پر ظلم کیا ہو۔ زیر گردشی قرضہ آسمان کو چھورہا ہے۔ قوم کی رگوں میں سے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑکر جس کی ادائیگی کی جائے گی ۔
پاکستان کے قیام کے کچھ عرصے بعد ہی چینی کی صنعت ہمارے حکمران طبقے کی پسندیدہ صنعت بن گئی ۔ یہ حکمران طبقے سول اور فوجی حکمران،کرپٹ سیا ستدان ،بیوروکریٹس اور سرمایہ دار یہ طاقتور اشرافیہ کی من پسند ساجھے داری تھی۔یہ اشرافیہ ریاست کے وسائل کو دولت آفرینی کے لیے استعمال کرتی ہے ۔پھر اس دولت کو مزید طاقت کے حصول کے لیے استعمال کرتی ہے۔1950سے 1990 تک سول ملٹری حکمران طبقے نے28شوگر ملوں کی منظوری دی۔یہ شوگر ملیں اس جا گیردار طبقے نے لگائیں جو سول اور ملٹری ہر حکومت میں شامل رہا۔ جو جائز یا نا جائز، حلال یا حرام بہر صورت حکمرانوں سے ساجھے داری رکھتا ہے۔ جنرل ایوب اور جنرل ضیا الحق کی نرسریوں میں پروان چڑھنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (کنونشن، قیوم، پاکستان) سب نے فوجی حکومتوں کو عوامی تائید مہیا کی اور بدلے میں فوجی ادوار میں حکومتی عہدے اور بے پناہ مالی فوائد حاصل کیے۔ اس عرصے کے دوران سیف اللہ، اتفاق گروپ، چودھری برادران اور اس طرح کے سیاسی اتحاد اُبھر کر سامنے آئے جنہیں ضیا الحق نے خوب نوازا اور بدلے میں پیپلز پارٹی، این اے پی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے خلاف استعمال کیا۔ اسی زمانے میں نواز شریف نے کہا تھا وہ پیپلز پارٹی کا نام سنتے ہیں تو ان کا خون کھولنے لگتا ہے ان کا بس چلے تو وہ پیپلز پارٹی کو سمندرمیں غرق کردیں۔ 1990 سے 1998 تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مختصر دورانیہ کی دو دو حکو متیں کیں۔ انہوں نے 31نئی شوگر ملوں کی منظوری دی۔ جنرل مشرف آئے تو انہوں نے جہانگیر ترین ماڈل متعارف کرایا۔ خسرو بختیار کو بھی اس ماڈل میں شامل کرلیا گیا۔ یہ ماڈل کارٹل کی صورت اختیار کرگیا۔ کارٹل ایسے جرائم پیشہ گروہ کو کہا جاتا ہے جو کسی بھی چیز کی تیاری سے لے کے مارکیٹنگ، امپورٹ ایکسپورٹ، بازار میں قیمتوں کا تعین،
اسمگلنگ، سبسڈی غرض ہر چیز اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ مارکیٹ کی قوتیں ہی نہیں حکومتیں بھی ان کے اشاروں پر چلتی ہیں۔ جہا نگیرترین اور خسرو بختیار کا یہی وہ کارٹل ہے جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر عمران خان کی حکومت قائم کرنے میں مالی معاونت فراہم کی۔
کسانوں کے ساتھ اس طرح ہمدردی کی جاتی ہے کہ گنے کی قیمت کا تعین حکومت خود کرتی ہے۔ چینی کی قیمتیں مل مالکان طے کرتے ہیں۔ یہ مالکان چینی کی پیداواری لاگت اتنی زیادہ شو کرتے ہیں کہ چینی کی خرید عام خریدار کے بس کی بات نہیں رہتی۔ لہٰذا وفاقی اور صوبائی حکومتیں چینی کی قیمت کم کرنے کے لیے مل مالکان کو برآمدی سبسڈی دیتی ہیں۔ اس نظام میں اس قدر بد دیانتی پائی جاتی ہے کہ شوگر مل مالکان کا حکومت کو اداد کردہ ٹیکس سبسڈی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ شوگر مافیا پاکستان میں محض ایک مجرمانہ کارٹیل نہیں رہا، یہ کالے دھن کو سفید کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے اور حکومتیں بنانے اور گرانے میں ایک بہت بڑا عامل بھی۔یہ اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعتوں کے لیے اے ٹی ایم کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور سیاسی جوڑ توڑ بھی۔ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے وعدے وعید جہا نگیرترین کی ایک پیش کش کے آگے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔
اس ملک میں سب کچھ طاقتور سول اور فوجی اشرافیہ اور سرمایہ داروں کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے۔ دنیا بھر میں چینی کی قیمتیں بہت کم ہیں۔ گنے کی فصل کے لیے پانی کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے جس سے دیگر فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر چینی باہر سے درآمد کی جائے تو موجودہ قیمتوں سے بہت کم میں دستیاب ہوسکتی ہے۔ لیکن اس ملک میں کس سے سوال کریں کس سے پو چھیں۔ کوئی ہے جو وفاقی حکومت سے سوال کرے کہ چینی کی قلت کے وقت اس نے چینی برآمد کرنے کی اجازت کیوں دی تھی۔ پنجاب حکومت نے بھاری امدادی قیمت کیوں دی۔ اس کالم میں چینی مافیا کو بطور علامت ذکر کیا گیا ہے ورنہ گا ئیڈڈ جمہوریت سے لے کر سول وفوجی حکمران طبقے سے لے کر بیورو کریسی، سرمایہ دار جا گیردارسب ہی مجرم کارٹلز کا روپ دھار چکے ہیں۔