عمران احمد
امریکا اس وقت احتجاج کے سخت دور سے گزر رہا ہے لیکن یہ اس کے لیے نیا نہیں ہے۔ مساوی انسانی حقوق اور انصاف کے حصول کے لیے سیاہ فام امریکی عوام کئی مرتبہ سڑکوں پر آئے ہیں اور اس وقت تک پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا جب تک اپنے جائز مطالبات منوا نہیں لیے۔ یہ ان کی آواز کی پختگی اور مطالبات کی سچائی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج سفید فام امریکی پولیس گھٹنوں پر بیٹھ کر سرنگوں ہیں اور سیاہ فام عوام سے معافی مانگ رہے ہیں۔
امریکا کی اس سرزمین نے ایسا وقت بھی دیکھا ہے کہ جب سیاہ فاموں کو افریقا سے بحری جہازوں میں لاد کر امریکا کی سرزمین پر غلام بنا کر لایا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں میلکم ایکس کی خود نوشت سوانح عمری ہر اس شخص کو پڑھنی چاہیے جو ظلم سے نفرت کرتا ہے اور اچھے سماج کے خواب دیکھتا ہے۔ یہ کتاب روٹس نامی کتاب کے مشہور مصنف ایلکس ہیلی کی مدد سے لکھی گئی، جس کا ایک ایک لفظ بغاوت کے علاوہ درد اور غم کی تصویر بھی ہے۔
میلکم ایکس کہتا ہے کہ کروڑوں سیاہ فام افراد افریقا سے غلام بنا کر امریکا لائے گئے۔ کاش میرے اختیار میں ہوتا کہ سمندروں کی گہرائی میں بکھرا ہوا خون، انسانی گوشت کے لوتھڑے، ٹوٹی ہوئی ہڈیاں اور کچلی ہوئی کھوپڑیاں دِکھا سکتا۔ یورپی تاجروں کے بحری جہاز افریقا جاتے اور غلاموں سے بھر کر آتے۔ شارک مچھلیاں ان جہازوں کا پیچھا کرتیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا تھا کہ ان جہازوں سے انسانی گوشت کھانے کو ملتا ہے۔ ایک صدی کے عرصے میں 11 کروڑ سیاہ فام یا تو غلام بنا لیے گئے یا پھر قتل کردیے گئے۔
اگر ہم پچھلی صدی کی بات کریں تو امریکی سیاہ فام خاتون روزا پارکس کی مساوی حقوق کی جدوجہد ناقابلِ فراموش ہے۔ روزا پارکس امریکا کی مشہور شخصیات کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ دسمبر 1955ء کا واقعہ ہے، امریکی ریاست جارجیا کی رہنے والی اس سیاہ فام عورت کو رنگ ونسل کی بنیاد پر ہر روز توہین آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس روز بھی وہ دفتر سے فارغ ہوکر گھر جانے کے لیے ایک بس پر سوار ہوئی تو راستے میں مشتبہ نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ اس بس کے 2 حصے تھے۔ ایک سفید فام افراد کے لیے اور ایک سیاہ فاموں کے لیے۔
ان دونوں کے درمیان ایک لکیر حائل تھی۔ روزا پارکس چُپ چاپ اپنے حصے میں جاکر بیٹھ گئی۔ اس وقت کے قانون کے مطابق مسافروں کی تعداد بڑھ جانے کی صورت میں سیاہ فاموں کو اپنی نشست چھوڑ کر کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ جب بس میں سفید فام افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا تو کنڈیکٹر کے حکم پر 3 سیاہ فاموں کو اپنی نشست سے اٹھنا پڑا اور ان کی نشستوں پر سفید فام بیٹھ گئے۔ اگلی باری روزا پارکس کی تھی۔ کنڈیکٹر نے اس کی طرف دیکھا لیکن اس نے یہ حکم ملنے کے باوجود اپنی نشست چھوڑنے سے انکار کردیا۔
روز روز کے توہین آمیز سلوک نے اسے پاگل بنا دیا تھا۔ اس نے غصے سے پوچھا، کیا میں اپنی نشست کسی اور کے لیے صرف اس لیے چھوڑ دوں کہ اس کی رنگت سفید ہے؟ کنڈیکٹر نے روزا کو بتایا کہ یہ انکار قانون کی نظر میں جرم ہے اور اس جرم پر وہ گرفتار ہوسکتی ہے۔ روزا نے کہا میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں لیکن ظلم کے روبرو جھکنے سے انکار کرتی ہوں۔ بس پھر کیا تھا۔ پولیس کو بلایا گیا، روزا گرفتار ہوئیں اور یوں چند دنوں کی جیل اور 14 ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی۔ اس سزا کے بعد امریکا میں ہر طرف ایک سناٹا طاری ہوگیا۔ اسی سناٹے کی کوکھ سے ایک مزاحمت نے جنم لیا، ایک ایسی مزاحمت جو انسانی برابری کی تحریک کا ایک اہم سنگِ میل بن گئی۔
مارٹن لوتھر کنگ اس تحریک کے روح رواں تھے۔ یہ مزاحمت 382 دنوں پر محیط رہی۔ اس دوران شہر کا ایک سیاہ فام بھی بس پر سوار نہیں ہوا۔ یہ لوگ نسلی امتیاز کی تحریک کا ہر اوّل دستہ بن چکے تھے۔ ایک طویل آئینی جنگ، مظاہروں، مزاحمت، ہنگاموں جیسے کئی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد بالآخر یہ جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ بس کے اندر کھینچی ہوئی لکیر مٹ گئی۔ اب کوئی بھی سیاہ فام اپنی نشست چھوڑنے کا پابند نہیں تھا اور یوں ظالمانہ قانون ایک عورت کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرسکا۔
‘ظلم اسی وقت تک ظلم ہے جب تک اسے للکارا نہ جائے، روزا پارکس نے یہ کہہ کر ظلم کی ساری نفسیات کو آشکار کردیا۔ روزا پارکس کو امریکا کے بلند ترین سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2 درجن سے زائد یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی۔ ان کی مزاحمت اور ان کے انکار نے کمزوروں کو ایک نیا حوصلہ بخشا۔ انکار کا وہ لمحہ ان کی زندگی کا روشن ترین لمحہ بن گیا۔
امریکا میں سیاہ فاموں کے حقوق کا باب سیاہ فام امریکی رہنما مارٹن لوتھر کنگ کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ انصاف اور برابری کے لیے ان کی کاوشیں بھلائی نہیں جا سکتیں۔ سیاہ فاموں کو آئینی تبدیلی کے ذریعے سفید فاموں کے مساوی حقوق دلوانے میں ان کا کردار ایک جادوگر کے مانند تھا۔ امریکی سول رائٹس موومنٹ ان کی محنت کا ثمر تھا۔ یہ ایک مشہور مذہبی اور سماجی رہنما تھے۔ 1929ء میں پیدا ہونے والے مارٹن محض 39 برس کی عمر میں قتل کردیے گئے۔ انہوں نے اپنی اس مختصر زندگی میں امریکی تاریخ پر بہت گہرے اور پائیدار نقوش ثبت کیے۔
1955ء میں منٹگمری بس بائیکاٹ، 1963ء میں ساؤتھرن کریسچن لیڈرشپ کانفرنس، مارچ آن واشنگٹن، 1965ء میں سلما ووٹنگ رائٹس موومنٹ اینڈ بلڈی سنڈے، 1966ء کی شکاگو اوپن ہاؤسنگ موومنٹ، اپوزیشن ٹو دی ویتنام وار اور پوور پیپل مہم 1968ء جیسی تحریکیں مارٹن کے ایسے کارنامے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ ان کی وجہ ہی سے آج سیاہ فام امریکی فخر سے سر بُلند کرکے چلنا سیکھے ہیں۔ وہ دنیا کے سب سے کم عمر نوبل انعام جیتنے والے شخص بھی تھے۔ عدم تشدد اور بھائی چارہ، یہ وہ 2 اصول تھے جن کے گرد اِن کی زندگی گھومتی تھی۔ مگر ان کی موت بندوق سے نکلی ہوئی ایک گولی سے ہوئی۔
مارٹن لوتھر کنگ کو نوبل انعام کے ساتھ امریکا کا ہر بڑا اعزاز بھی پیش کیا گیا۔ ان کی یاد قومی تہوار کے طور پر منائی جاتی ہے۔ امریکا کے 730 شہروں کی سڑکیں ان کے نام سے منسوب ہیں۔ انہیں امریکا کے عظیم مقرر کا خطاب بھی ملا۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے مرنے پر جب لوگ آخری رسومات میں شرکت کے لیے آئیں تو ان میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ کنگ یہاں پیدا ہوا، اس اسکول میں پڑھا اور پھر اس نے نوبل انعام جیتا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگ صرف اس جدوجہد کی بات کریں جو انہوں نے انسانیت کی بھلائی کے لیے کی۔
ان کی مشہور تقریر میرا ایک خواب ہے (I have a Dream) کو 20ویں صدی کی بہترین تقریروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ 2 لاکھ سے زائد افراد کی موجودگی میں مارٹن لوتھر نے 17 منٹ کا یہ خطاب کیا۔ مؤرخین کے مطابق وہ خطاب نہیں بلکہ ایک سحر تھا جو پہلے وہاں موجود 2 لاکھ حاضرین پر طاری ہوا اور پھر پوری دنیا پر۔ تقریر کی گونج اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک اس روز دیکھا گیا خواب پورا نہیں ہوتا۔ یہ خواب کیا ہے؟ آئیے ایک نظر اس پر ڈالتے ہیں۔ کنگ نے اپنی تقریر میں کہا:
‘میرے دوستو! میں آج آپ سے کہتا ہوں کہ کل اور آج کے مصائب جھیلنے کے باوجود بھی میرا ایک خواب ہے، ایک ایسا خواب کہ جس کی گہری جڑیں ایک امریکی خواب میں پنہاں ہیں۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم اُٹھ کھڑی ہوگی اور اپنی تشخیص کو صحیح معنوں میں پہچانتے ہوئے اس آئینی حقیقت کا خود ثبوت بنے گی کہ دنیا کے تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر پیدا کیا گیا۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن جارجیا کے سرخ پہاڑوں پر، سابقہ غلاموں کے بیٹے اور سابقہ غلاموں کے آقاؤں کے بیٹے ایک ساتھ بھائی چارگی کی میز پر بیٹھیں گے۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن میسی سیپی جیسی ریاست جو ناانصافی کی تپش سے جھلس رہی ہے اور ظلم و جبر کی گرمائش سے جل رہی ہے، وہی ریاست ایک دن آزادی و انصاف کے ایک خوشگوار نخلستان میں بدل جائے گی۔ میرا ایک خواب ہے کہ میرے 4 بچے ایک دن ایسی قوم کا حصہ ہوں گے جہاں ان کی پہچان ان کی جلد کی رنگت کے بجائے ان کے کردار سے کی جائے گی۔
آج میرا ایک خواب ہے!
میرا یہ خواب ہے کہ ایک دن الاباما کے وہی بے رحم نسل پرست و نسلی تعصب برتنے والے اپنے اس گورنر کے ساتھ افسردہ و شرمندہ نظر آئیں گے جس کی زبان سے عموماً اعتراض اور مسترد‘ جیسے الفاظ ٹپکتے رہتے ہیں۔ ایک دن اسی الاباما میں سیاہ فام بچے اور بچیاں بھائی بہنوں کی طرح سفید فام کم سن لڑکے اور لڑکیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چل پائیں گے۔
یہ برابری اور انصاف کا خواب تھا۔ اس تقریر میں پوشیدہ انقلاب کی گھن گرج ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ الفاظ کی سادگی اور تکرار نے یہ تقریر لازوال بنا دی۔ مارٹن لوتھر کا خواب صرف انہی کا خواب نہیں رہا۔ بعض لوگ اپنے غم کو دنیا کا غم بنا دیتے ہیں۔ مارٹن انہی لوگوں میں سے ایک تھے۔ ماضی کی تحریکوں کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سیاہ فام جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد امریکا میں جاری احتجاجی مظاہروں سے امریکی عوام کو نقصان سے زیادہ فائدہ حاصل ہوگا۔ انصاف کے حصول کی جدوجہد رنگ لائے گی اور ظلم کے خلاف امریکی صدر کی نسل پرست مہم کو شدید نقصان پہنچے گا۔
نومبر 2020ء میں ہونے والے امریکی انتخابات پر اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ امریکا میں ہونے والے احتجاج کیا شکل اختیار کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر میرا خیال یہی ہے کہ اس سے امریکا نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہوگا۔ (بشکریہ ڈان)