مویشی منڈیوں پر پابندی

372

حکومت سندھ نے صوبے میں مویشی منڈیاں لگانے کی اجازت اچانک منسوخ کردی ہے ۔ اس سے قبل دو جون کو محکمہ داخلہ سندھ نے صوبے میں مویشی منڈیاں لگانے کی باقاعدہ سفارش کی تھی جس کے بعد سیکریٹری بلدیات نے مویشی منڈیاں لگانے کے باقاعدہ اجازت نامے جاری کیے تھے ۔ مویشی منڈیاں لگانے کے لیے باقاعدہ ہدایات جاری کی گئی تھیں جن کے تحت سماجی فاصلہ اور ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا تھا تاہم اب اتوار کو حکومت سندھ نے اچانک ہی یہ اجازت نامے منسوخ کردیے ہیں ۔ اجازت نامے منسوخ کرنے کی وجہ کورونا کے بڑھتے ہوئے کیس قرار دیے گئے ہیں ۔ مویشی منڈی نہ لگانے کے نتائج انتہائی بھیانک نکلیں گے کہ ملک کی دیہی آبادی کی معیشت کا بڑا انحصار عیدا لاضحی پر لگنے والی مویشی منڈیاں ہی ہیں ۔ حکومت سندھ نے جس طرح جلدی میںیہ فیصلہ کیا ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کورونا سے بڑھ کر ہیں ۔ سینہ گزٹ میں بار بار کہا جارہا ہے کہ یہ سب کورونا سے بڑھ کر کرپشن کا معاملہ ہے ۔ مویشی منڈی میں جانور لانے تک پہلے ہی ہر قسم کی انتظامیہ ان کے بیوپاریوں کی کھال کھینچ چکی ہوتی تھی جس کا لازمی نتیجہ ان جانوروں کی قیمت میں اضافے کی صورت میں نکلتا تھا ۔ شہر سے باہر مویشی منڈی کا تصور نعمت اللہ خان کے سٹی ناظم ہونے کے دور میں آیا تھا ۔ اس دور میں شہر میں ہر قسم کی منڈی لگا نے پر نہ صرف ممانعت تھی بلکہ بیوپاریوں کو سہراب گوٹھ کے قریب لگائی جانے والی منڈی میں ہر قسم کی سہولتیں بھی فراہم کی جاتی تھیں جس کے عوض ان سے مناسب فیس وصول کی جاتی تھی ۔ اب یہ فیس کئی گنا بڑھ چکی ہے تاہم سہولتیں ناپید ہوچکی ہیں ۔ ہر قسم کی فیس اسٹیشن ہاؤس کمانڈر کے نام پر وصول کی جاتی ہے مگر سیکوریٹی سے لے کر پانی تک ان بیوپاریوں کو مہیا نہیں کا جاتا ۔ گزشتہ برس بارش کے باعث جانور پانی میں کھڑے رہنے کے باعث مرگئے تھے جس سے بیوپاریوں کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا تھا مگر نکاسی آب کا آخر تک کوئی انتظام نہیں کیا جاسکا تھا ۔ اب کہا جارہا ہے کہ منڈیاں تو لگیں گی مگر اس کی اجازت پہلے صوبائی حکومت دے گی جس کے لیے بھاری رشوت طلب کی جارہی ہے ۔ یہ امر واضح ہے کہ کراچی میں لاک ڈاؤن ختم کرنے کے نام پر بھی مارکیٹوں سے بھاری رشوت طلب کی گئی تھی ۔ ایس او پی پر عمل نہ کیے جانے کے الزام میں بڑے اسٹورز بار بار سر بہ مہر کیے گئے جنہیں دوبارہ کھولنے کے لیے مقامی انتظامیہ نے لاکھوں روپے رشوت سرعام وصول کی۔ کراچی میں جس جگہ پر مویشی منڈی لگائی جاتی ہے اس کے عین سامنے سبزی منڈی ہے جہاں پر ایک دن بھی کاروبار بند نہیں ہوا اور نہ ہی کسی ایس او پی پر عمل کیا گیا ۔ جب سبزی منڈی اور پھل منڈی میں کاروبار جاری ہے اور اس سے کورونا پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں تو پھر مویشی منڈی سے کس طرح کورونا پھیل سکتا ہے جہاں پر شہری عمومی طور پر پہلے ہی ماسک پہن کر جاتے ہیں ۔ ہمارے خیال میں اس معاملے پر مویشی منڈی لگانے والے منتظمین کو بھی غور کرنا چاہیے جن پر پہلے ہی بھاری رقم بنانے کے الزامات لگتے رہے ہیں ۔ حکومت سندھ کو بھی اپنے اوپر لگنے والے الزامات پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ صرف اجازت نامے جاری کرنے کی مد میں کروڑوں روپے وصول کیے جارہے ہیں ۔