میگا سٹی کے لیے میگا کرپشن سے نجات

360

امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دے کر مکمل اختیارات اور وسائل دیے جائیں۔ انہوں نے اتوار کے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کراچی ملک کی معاشی اور نظریاتی شہ رگ ہے۔ یہاں زیادہ وسائل کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سراج الحق سے قبل امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن بھی کراچی کو وسائل اور اختیارات دینے کا مطالبہ کرچکے ہیں اور جماعت اسلامی کی جانب سے یہ کوئی اچھوتا مطالبہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی اور اہل کراچی کی جو خدمت کی ہے اس کی روشنی میںیہ مطالبات جماعت اسلامی ہی پر سجتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے بی ڈی ممبرز کے ذریعے اپنے چار ارکان قومی اسمبلی اور ایک رکن سندھ اسمبلی کے ذریعے میئر کراچی عبدالستار افغانی اور اخوت گروپ کے ذریعے اس کے بعد نعمت اللہ خان کے ذریعے کراچی کی جو خدمت کی ہے اس کے نتیجے میں آج حکمرانوں کی بھرپور لوٹ مار کے باوجود کراچی میں کچھ نہ کچھ جان باقی ہے۔ اگر جماعت اسلامی نے پانی کے منصوبے، سڑکیں، پارک، اسپتال وغیرہ نہ دیے ہوتے تو آج حقیقتاً کرااچی کی سڑکوں پر مریض پڑے ہوتے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ کرپشن کا کورونا سب کچھ چھین کر لے گیا۔ سراج صاحب نے مطالبہ تو کیا ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دیا جائے اور وسائل اور مکمل اختیار دیا جائے لیکن اس میں ایک مطالبہ اور بھی ہونا چاہیے کہ پہلے کرپٹ بے ایمان اور لٹیرے حکمرانوں سے نجات دلائی جائے۔ یہ کام اکیلے عوام نہیں کرسکتے۔ میڈیا کے ذریعے چوروں کو نجات دہندہ بنا کر پیش کیا جانا ہے اور یہی چور صوبے کے وسائل لوٹنے کے لیے آدھمکتے ہیں۔ اب اس میں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ پاکستان میں حکمران ملک کے وسائل لوٹنے کے لیے اقتدار میں آتے ہیں ملک کے معاملات قرضوں کے حوالے کرکے خود پانچ سال دس سال حکمرانی کرکے چلتے بنتے ہیں لیکن سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ایک ہی پارٹی حکمران ہے اور اس کے لوگ تمام اداروں کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں۔ کرپشن کا کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس کراچی کو عبدالستار افغانی نے آبی منصوبے دیے اور ماس ٹرانزٹ کا منصوبہ دیا اسے بعد میں لائی جانے والی حکومتوں نے تباہ کیا۔ پھر جب نعمت اللہ خان نے کراچی کی شکل بدل کر رکھ دی تو حکومتیں بدلنے والوں نے ایم کیو ایم کو زندہ کیا اس کے ذریعے سٹی گورنمنٹ کے نظام کا بیڑا غڑق کروایا۔ جو مصطفی کمال اپنا کمال بتاتے ہیں ان کے دور میں جاری منصوبوں کی لاگتیں چار چار گنا بڑھ گئیں۔ اربوں روپے شہری سہولیات کے نام پر خرچ ہوگئے اور پہلی ہی بارش میں کراچی ڈوب گیا۔ دوسری کرپشن یہ ہوئی کہ ایم کیو ایم سے ناراض ہو کر تمام اختیارات سندھ حکومت کے قبضے میں دے دیے گئے۔ پھر ایم کیو ایم کے تمام جرائم میں شریک ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کو معاف کرکے صرف الطاف حسین پر سارا ملبہ ڈال دیا گیا۔ ایم کیو ایم کے سارے مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹائون ہو یا طاہر پلازہ یا 12 مئی یا پھر بوری بند لاشیں اور بھتے، حکومتیں بنانے بگاڑنے والے سوچیں کہ جب بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ ملے گی اور انہیں حکومت کا حصہ بنایا جائے گا تو نتائج یہی ہوں گے۔ جماعت اسلامی کی محنت پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے جس طرح ڈاکا ڈالا اور اداروں کو تباہ کیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کو میگا سٹی کا درجہ دینے سے قبل ان کرپٹ لوگوں کا کڑا احتساب کیا جائے۔ لوٹا ہو مال نکلوایا جائے۔ پھر کراچی میں مصنوعی قیادت لانے کی کوشش نہ کی جائے۔ گزشتہ برسوں میں پیپلز پارٹی نے محض فنڈز کے حصول کے لیے درجنوں بلدیاتی اداروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ۔ ان اداروں کو میگاسٹی کے حوالے کروانا بھی ایک بڑا مرحلہ ہوگا۔ کیوں کہ حکومت کو مال سمیٹنے کا مزا لگ چکا ہے اس لیے آسانی سے یہ ادارے نہیں چھوڑے جائیں گے۔ کراچی کے بڑے تاجروں اور صنعت کاروں کو تو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان سے بھتے کون لیتا ہے۔ آج کل بھی کورونا کے نام پر لاک ڈائون کرکے صنعتیں کھولنے کے لاکھوں روپے کون وصول کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے کاروبار میں وسعت اور ایمانداری سے کام چاہتے ہیں جس کا مطلب ملکی ترقی ہے تو وہ بھی اپنے وسائل درست سمت میں لگائیں ورنہ بھتا دے کر بھتے ہی دیتے رہیں گے۔ کراچی کے اداروں اور وسائل کو جونکوں سے چھڑانے کے لیے بھی میگا فورس استعمال کرنی پڑے گی۔ تا کہ میگا کرپشن کا خاتمہ ہوسکے اور اس سارے عمل میں شفافیت کے دعویدار طاقت کے مراکز کو بھی سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے لوگوں کو ملک کے مختلف اداروں اور حکومتوں پر مسلط کردیتے ہیں۔ بار بار ایسا ہو تو لوگ یہ بھی سوچنے پر مجبور ہوسکتے ہیں کہ انہیں بھی حصہ ملتا ہوگا۔ اپنے اور مقدس ادارے کے بارے میں غلط تاثر دور کرنا ان ہی کی ذمے داری ہے۔