احمد حاطب صدیقی
لڑکپن کا زمانہ تھا۔اب ٹھیک سے یاد نہیں، ایوب خان کا زمانہ تھا کہ یحییٰ خان کا زمانہ۔ مگر تھا ڈنڈے کا زمانہ۔وہ زمانہ، جو بعد میں آنے والے بد ترین زمانوں کے باعث اب ’’سہانا زمانہ‘‘ کہلانے لگا ہے۔
اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ ایک روز یہ خبر ہر خاص و عام کی زبانِ غیبت بیان سے بے لگام ہوتی ہوئی ہم تک بھی آ پہنچی کہ:
’’شہر کے قصائیوں نے ہڑتال کر دی ہے‘‘۔
قصائیوں کو پہلے، غالباً اُن کی قساوتِ قلبی کے باعث، ’’قسائی‘‘ لکھا جاتا تھا۔پھر شاید اُن کے بغدے سے ڈر کر ’’قصائی‘‘ لکھا جانے لگا۔ عربی زبان میں لفظ ’’قَصَبَ‘‘ کے معنی ’’عضو عضو کاٹنا ‘‘ ہے۔ اسی سے اسمِ فاعل ’’قَصَّاب‘‘ بنا۔ جسے ہم نے قصائی بنا ڈالا
قصائیوں کی ہڑتال ہوئی تو غنی بھائی کی دُکان پر بھی سنّاٹے کا راج ہو گیا۔غنی بھائی کی دُکان تو ملیر توسیعی کالونی کی بڑی پُر ہجوم دکان تھی۔مجمعِ خلائق ہی نہیں، مرجعِ خلائق بھی تھی، یعنی بزبانِ انگریزی ایک Meeting Point کا درجہ رکھتی تھی، اہلِ ذوق کے لیے۔
ملیر توسیعی کالونی کو اُس وقت بھی عرفِ عام میں کھوکھراپار کہا جاتا تھا اور اِس وقت بھی کہا جاتا ہے۔ دونوں کی وجہِ تسمیہ سُن لیجیے۔ اپنے خوابوں کی سرزمین، پاکستان، کی طرف ہجرت کر کے آنے والوں کے لیے اس نوزائیدہ ملک میں ایک نئی بستی بسائی گئی۔ یہ بستی دارالحکومت کراچی کے مضافات میں تعمیر کی گئی تھی۔ ملیر کے سرسبز و شاداب علاقے میں۔ اس بستی کا نام رکھا گیا: ’’ملیر مہاجر کالونی‘‘۔ (برصغیر چوں کہ تقریباً دو صدیوں تک انگریزوں کی ’’کالونی‘‘ بنا رہا چناں چہ ’’کالونی‘‘ کا لفظ ہماری بہت سی بستیوں کا جزوِ لازم بن گیا)۔ بعد میں خود ’’مہاجروں‘‘ نے یہ کہہ کر کہ اب ہم ’’مہاجر‘‘ نہیں رہے، یہ ہمارا وطن ہے، اس بستی کے نام سے لفظ ’’مہاجر‘‘ منہا کر دیا۔ اب یہ بستی ’’ملیر کالونی‘‘ کہلانے لگی۔۱۹۵۴ء میں شاہ سعودنے اسی کالونی میں ایک اور بستی کا سنگِ بنیاد رکھا جو آج بھی’’ سعود آباد‘‘ کہلاتی ہے۔ سن ساٹھ کے بعد شروع ہونے والی دہائی میںاس بستی میں توسیع کی ضرورت محسوس کی گئی اور یوں ’’ملیر توسیعی کالونی‘‘ وجود میں آگئی۔
ملیر توسیعی کالونی کے اولین آباد گاروں میں رن کچھ سے آئے ہوئے مسلمان مہاجرین کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ کھوکھرا پار کے صحرائی علاقے سے سرحد پار کرکے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔ جب وہ ملیر کے اس (توسیعی) حصے میں پہنچے تو انھیں یہاں بھی کھوکھرا پار کی جھلک نظر آئی۔ ویسا ہی ریتیلا صحرا، نرم بھربھری ریت کے ٹیلے، کھلا آسمان اور تیز آندھیاں۔ یہ آندھیاں سمندر کی لہروں کی سی شکل کے بنے ہوئے ٹیلوں کو صبح سے شام تک ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی رہتیں۔ کچھی مہاجروں نے اس بستی کو بھی ’’کھوکھرا پار‘‘ کا نام دے دیا۔
جس وقت کا یہ ذکر ہے، ملیر توسیعی کالونی اُس وقت ایک چھوٹا سا قصبہ تھی۔ اب تو کسی چھوٹے موٹے شہر کے سے وسائل اور مسائل کی آماج گاہ ہے۔ شہر کراچی کے مضافات میں اور شہر سے تقریباً بائیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کی وجہ سے ، یہاں کے لوگوں کو جب صدر جانا ہوتا تو کہتے کہ : ’’ہم شہر جا رہے ہیں‘‘۔ تمام گھر یک منزلہ، کھلے اور ہوا دار تھے۔ ہر گھر میں آنگن تھا۔ گلیاں روشن اور کُشادہ تھیں۔ بستی کے ہر محلے میں وسیع و عریض کھیل کے میدان تھے۔سب لوگوں کا آپس میں میل جول تھا۔ غربت اور محبت بہت زیادہ تھی۔
یہ بستی اُس زمانے میں شرفا کی بستی کہلاتی تھی۔ جرائم پیشہ عناصر تھے نہ ’’اسٹریٹ کرائم‘‘ کا تصور۔ لوگ اپنے دروازے کھلے چھوڑ کر سو جاتے۔ جن گھروں کی آبادی زیادہ تھی اُن گھروں کے مرد اکثر رات کو گلی میں چارپائی بچھا کر سو رہتے۔ دروازے چوپٹ کھلے رہتے۔
بستی کے اکثر باسی تعلیم یافتہ تھے۔ ملازمت پیشہ، تاجر، عالم، دانشور، شاعر، ادیب اور بہت سے فنکار۔متعدد دلچسپ کردار بھی اس بستی میں رہا کرتے تھے۔ زندگی نے مہلت اور مصروفیات نے فرصت دی تو ہر کردار کا خاکہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے۔
ملیر توسیعی کالونی کی وہ سڑک جو بس اسٹاپ نمبر ایک سے ڈاک خانے تک زندگی کی راہوں کی طرح غیر محسوس طریقے سے مڑتی ہوئی، ایچ ایریا اور ایف ایریا کے درمیان حدِّ فاصل بناتی ہوئی G” ” ایریا تک پہنچ جاتی ہے، پھر اس کے بعد پورے کھوکھرا پار کا طواف کرکے دوبارہ بس اسٹاپ نمبر ایک پر آکر دم لیتی ہے، اُس سڑک پر ابھی تجاوزات اور تجارتی تعمیرات کا جنگل نہیں اُگا تھا۔ ان تعمیرات کے آگے فروشندگی کا میلہ نہیں لگا تھا۔ ابھی یہ سڑک اتنی پُر رونق اور پُر ہجوم نہیں ہوا کرتی تھی۔ ٹریفک کم تھا۔ لوگوں کے پاس ذاتی سواریاں جو نہیں تھیں۔ بس اسی سڑک پر ڈاک خانے سے کچھ پہلے ایک گھر کے سڑک والے حصے کی طرف بنی ہوئی ایک دکان، غنی بھائی کی دُکان تھی۔
قصابوں کی ہڑتال ختم ہوئی تو غنی بھائی نے اپنے دستِ خوش خط سے لکھا ہوا ایک ’’دستی اشتہار‘‘ (Handbill) اپنے ’’کرم فرماؤں‘‘ میں تقسیم کیا جس میں ہڑتال پر جانے کے اسباببتائیگئے تھے،مہنگائی کا رونا رویا گیا تھا (بھلا کتنی مہنگائی ہو گئی ہوگی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایوب خان کے دور میں گائے کا گوشت سوا روپئے سیر ہم نے خود خریدا ہے) اپنی برادری کے دُکھوں کی داستان بیان کی گئی تھی اور’’کرم فرماؤں‘‘ کو ہونے والی زحمت پر معذرت کی گئی تھی۔ہینڈ بل کیا تھا، ادب کا مرقع تھا۔ جابجا ضرب الامثال اور محاورے استعمال کیے گئے تھے۔ مصرعوں اور اشعار کی مدد سے عرضِ مدعا کیا گیا تھا اور آخر میں تحریر تھا:
’’ع،غ قریشی۔ سکریٹری جنرل جمعیت اہلِ قریش‘‘۔
غنی بھائی نہ جانے اب کہاں ہوں گے؟ ہوں گے بھی یا نہیں؟مگر اُن کی ’’جمعیت اہلِ قریش‘‘ غالباً ’’جمعیت القریش‘‘ کے نام سے اب بھی باقی ہے۔ اس نام کی بازگشت ہمیں اپنے ملک کے مؤقر مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی ایک کتاب ’’حواسِ خستہ‘‘ (مطبوعہ: ۲۰۰۳ء) میں سنائی دی۔ اس کتاب میں اُن کے ایک مضمون کا عنوان ہے: ’’جمعیت القریش کا جلسہ‘‘۔ یہ مضمون ۱۹ دسمبر ۱۹۹۴ء کو جناب جاذب قریشی کی ایک کتاب کی رسمِ اجرا کے موقع پر پڑھا گیا تھا۔ اس مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:
’’جناب جاذب قریشی نے ہمیں اپنی کتاب اس فرمائش کے ساتھ دی کہ اس پر مضمون پڑھنا ہے تو ہم نے انھیں سمجھایا کہ بھائی، صاحبِ کتاب قریشی، تین میں سے ایک مقرر قریشی، آپ کا ناشر قریشی، آپ کا پرنٹر قریشی، دس بیس قریشی حاضرین میں بھی ضرور ہوں گے۔ یہ تقریبِ اجرا کیا ہوئی جمعیت القریش کا جلسہ ہو جائے گا۔وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ایک قریشی صاحب نے امریکا سے یہاں آکر ہمارا اعتماد بحال کر دیا ورنہ کچھ عرصے قبل تک صورتِ حال یہ تھی کہ پڑھے لکھے حضرات اپنے آپ کو قریشی کہتے ہوئے ڈرتے تھے کہ لوگ ان سے تازہ ترین بھاؤ نہ پوچھ بیٹھیں۔ جو زیادہ محتاط تھے وہ خود کو قرشی کہنے لگے تھے۔ لیکن جب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ ایک قریشی کو ملا ہے، ملک میں قریشیوں کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے اور گوشت کی قیمتیں بھی۔سنا ہے موصوف نے پھر پاکستان کے ویزا کے لیے اپلائی کر دیا ہے اور اِدھر ہمارے محلے کا قصاب الاپنے لگا ہے ع
چلے بھی آؤ کہ ’’چُھٹّن‘‘ کا کاروبار چلے‘‘ (ص:۱۳۳)
ہمارے قصبے میں قصابوں کی بہت سی دکانیں تھیں۔ مگر سارا ہجوم عبدالغنی قریشی کی دُکان پر جو اُمڈا چلا آتا تھا اُس کی وجہ اقبالؔ کے اس شعر میں تلاش کیجیے:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
غنی بھائی صرف مردِ خلیق ہی نہیں تھے۔مردِ عمیق بھی تھے۔ بڑی گہری باتیں کیا کرتے تھے۔ اساتذہ کے بے شمار اشعار انھیں ’’منہ زبانی‘‘ یاد تھے۔ہم نے قصبے کے بڑے بڑے شاعروں کو ان کی دکان کے آگے ہجوم میں کھڑے لطف لیتے دیکھا۔ بعضے بعضے تو انھیں خود چھیڑتے تھے۔ ان کی گفتگو میں روز مروں، محاوروں، ضرب الامثال اور تشبیہات کی چاشنی ہوتی تھی۔ وہ تہمد باندھے، بنڈی پہنے، سر پر رومال لپیٹے، اپنی گدی پر بیٹھے ہوتے(نئی نسل کے لوگوں نے بنڈی کا نام تو نہیں سنا ہوگا مگر دیکھا ضرور ہوگا۔ ہلکے کپڑے کی بنی ہوئی صدری یا واسکٹ جو سامنے سے کھلی ہوتی ہے، پیٹ نظر آتا ہے اور جس میں دو جیبیں اوپر اور دو جیبیں نیچے لگی ہوتی ہیں) چھریاں تیز کرتے ہوئے سامنے ٹنگے گوشت پر نظریں جمائے رکھتے اور گاہک کے بجائے اپنی مرضی کا گوشت کاٹ کر اُس کے پارچے بناتے رہتے۔ شعر کے جواب میں شعر سناتے اور فقروں کے جواب میں فقرے لٹاتے رہتے۔ حضرتِ عین غین قریشی،اپنی دُکان پر اپنی مرضی، اپنی چھریاں اور اپنا بُغدا چلانے کے ساتھ ساتھ اپنی کوثر وتسنیم میں دُھلی ہوئی زبان بھی چلاتے رہتے تھے۔ بس یہی زبان سننے کے لیے تو جم گھٹا سا لگا رہتا:
’’مرزا صاحب! ذرا چھری تلے دَم تو لیجیے… جی جی،فکر نہ کیجیے… چھوٹی چھوٹی بوٹیاں ہی کروں گا (سانس بھر کر) آپ کی‘‘۔
’’قدوائی صاحب … قربان جاؤں … حضت!… اِس ’’ادلے‘‘ کا بدلہ نہیں ہے کوئی‘‘۔
’’ارے بی بی! اتنی بے صبری نہ دکھائیے، ابھی آپ کا قیمہ بنائے دیتا ہوں‘‘۔
’’راہی صاحب! … اُٹھا لیجیے … کاغذ پہ رکھ دیا ہے کلیجہ نکال کے‘‘۔
’’معاف کیجیے گا بدایونی صاحب …مجھے احساس ہے کہ آپ کا مغز نکالنے میں بہت تاخیر ہو گئی، مگر … ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا‘‘۔
اب تو کراچی کے بہت پڑھے لکھے لوگوں کے منہ سے بھی یہ زبان سننے کو نہیں ملتی جو ہم ایک کم پڑھے لکھے قصاب کے منہ سے سنا کرتے تھے۔