وقاص احمد
موجودہ حالات اور بہت سے اقربا ء، دوستوں اور احباب کو دیکھتے ہوئے، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کی حقیقی بیماری اور احتیاطی تدابیر تو ایک طرف ، اس وائرس کے حوالے سے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی بے جا اور غیر حقیقی ہولناکی اور ہیبت اور پھر اس سے جڑی ڈرامے بازی اور نوٹنکی نے لوگوں کے ذہنوں پر شدید اثر کیا ہے۔ ہمیں معاشرے میں ایسے افراد کثیر تعداد میں مل جائیں گے جن کے اندر کورونا کے حوالے سے خوف اور احتیاطی تدابیردیوانگی کی اس حد تک پہنچ گئی ہیں کہ ان کا شمار نارمل لوگوں میں کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک زمانے میں کراچی کے ایک شام کے اخبار نے مقبولیت کے سارے ریکارڈ اس طرح توڑے کہ عقل اخبار والوں کی ذہانت پر اش اش کر اٹھی۔ اخبار نے نوّے کی دہائی میں کراچی میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اور ہلاک ہونے والوں کی تصاویر بہت نمایاں کرکے شائع کرنا شروع کردیں اور سب سے بڑھ کر لال خونیں رنگ کا استعمال بے دریغ کرنا شروع کردیا جس نے خوف کی انتہائی پر اثر نفسیات کو ابھارتے ہوئے لوگوں کے ذہنوں کو جکڑ لیا اور اس طرح اس اخبار نے شام کے تمام اخبارات کو پیچھے چھوڑ دیا۔
کچھ اسی طرح کی اسٹرٹیجی دنیا بھر کے اکثر مفادات زدہ کارپوریٹ میڈیا اور اس کے پاکستانی حواریوں نے بھی اپنائی۔ جس نے ایک طرف تو لوگوں کوذہنی مریض اور بائولا بنایا۔ دوسری طرف ایک ایسے بڑے طبقے کوبھی جنم دینے میں مدد کی جس نے اس وائرس کی حقیقت اور اس کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کا ہی انکار کردیا۔ یہ سادہ سی انسانی فطرت ہے کہ جب آپ کسی چیز کو اس کی حقیقت کے مقابلے میں انتہائی بڑھا چڑھا کر پیش کریں گے، جب حقائق میں سے بھی پسند کی حقیقت بیان کرکے اسی بات سے جڑی دوسری حقیقت یابیان کو چھپا ئیں یا نظر انداز کریں گے جبکہ دوسری حقیقت کا منبع بھی اس شعبے کا ایک بڑا ڈاکٹر، مصدقہ سائنسدان یاقابل ذمے دار شخص و ادارہ ہو تو لوگ بے اعتمادی کا شکار ہوکر دوسری انتہا پر بھی چلے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ایک طرف کچھ لوگ صبح شام دروازے کا ہینڈل، جوتے کے تلوے اور موبائل کی اسکرین ہی صاف کیے جارہے ہیں، نہ کسی سے ملاقات کر رہے ہیں نہ کسی کو گھر پر آنے دے رہے ہیں تو دوسری طرف بغیر کسی ماسک اور فاصلے کے محفلیں اور بغلگیریاں ہیں بے ہنگم ہجوم ہیں۔
ایسے ماحول میں جہاں کورونا وائرس نے اجتماعی طور پر ادا کیے جانے والے انتہائی اہم دینی فرائض کی بجاآوری میں تعطل و رکارٹ پیدا کی وہیں دوسرے ’’ایمانی‘‘ فرائض تو پس پشت ہی چلے گئے۔ ’’ایمانی‘‘ کو راقم اس لیے اہمیت سے بیان کر رہا ہے کیونکہ یہ وہ فرائض ہیں جن کا کوئی شرعی حدود اربعہ متعین نہیں ہوتا۔ شریعت میں کوئی خاص مقدار، تعداد، کوئی وقت و مقام مکمل طور پر تعین کے ساتھ نماز روزے کی طرح واضح نہیں ہوتے۔ ان کاموں کی فرضیت کا احساس انسان کے علم اور حقیقی ایمان کے بڑھنے سے بڑھتا ہے۔ مزید برآں اس کے اپنے اور گردو پیش کے حالات بھی اس پر اثر ڈالتے ہیں۔ صدقات نافلہ ، ذکر اللہ، خلق اللہ کی خدمت ، دعوت و تبلیغ اور اقامت دین جیسے انتہائی اہم فرائض کا تعلق اسی نوع سے ہے۔ کورونا وائرس کے ابتدائی خوف اور ہیبت نے (جس کے پیچھے کار فرما عوامل پر راقم کافی کچھ لکھ چکا ہے) نفسا نفسی کا جو بازار گرم کیا اس کی پہلی جھلک ہمیں مہنگائی ، اشیا خورو نوش اور ساما ن کی گھرو ں میں ذخیرہ اندوزی سے نظر آئی۔ یہاں مین اسٹریم میڈیا کے برعکس وزیر اعظم کی عجلت و گھبراہٹ سے دور خطابات نے خوف اور ہوش ربا ہولناکی میں کمی لانے میں اچھا کردار ادا کیا۔ بہتر فیصلے کرنے کے لیے اس وباکے حوالے سے صحیح اعداد و شمار اور اس معاملے سے جڑے تمام پہلوئوں پر غور کرنا انتہائی ضروری تھا۔ لاک ڈائون سے پہلے ہی الخدمت مستحقین، ناداروں اور متاثر ہونے والے محنت کشوں کی امداد کے لیے مستعد تھی جس نے امددی کاموں کے دریا میں پہلی زبردست موج کاکام کیا۔ڈاکٹرو ں اور پیرا میڈکس کے بعد سماجی تنظیموں کے ہی کارکن ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے پھیلے ہوئے خوف کے باوجود لوگوں سے شخصی، بالمشافہ ملاقات کر کے امداد پہنچانے کا اہم فرض ادا کیا۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر امدادی کاموں میں ہونے والی ان ذاتی ملاقاتوں اور ٹیم ورک نے کورونا کے غیر منطقی اور غیر حقیقی طور پر بڑھے ہوئے خوف کا اثر زائل کیا۔ پھر اس کے بعد وائرس کے حوالے سے بھی ایسی سائنٹیفک معلومات بتدریج آتی رہیں جن سے پتاچلتا رہا کہ یہ وائرس کیا ہے اور کیا نہیں۔ ان لکھنے اور اشاعت کرنے والوں کو بھی داد دینی ہوگی جنہوں نے وائرس کی ہلاکت خیزی ، لاک ڈائون اور علاج کے حوالے سے الگ بیانیہ رکھنے والے بڑے، قابل و اہل سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کی رائے پر تحقیق کر کے مضامین لکھ کر قارئین کو نظر انداز ہوئے حقائق سے آگاہ کیا۔
اب جبکہ لوگ فیکٹریوں، کارخانوں، دکانوں، آفسو ں میں کام بھی بھرپور طریقے سے کررہے ہیں ، وہ وقت آگیا ہے کہ اسلامی تحریکوں اور تنظیموں سے منسلک کارکنان ضروری احتیاطی تدابیر کے ساتھ اپنے فرائض کی انجام دہی کا ایک نئے جذبے سے آغاز کریں۔ کم از کم دو فٹ کے فاصلہ اور ماسک کے استعمال کے ساتھ بغیر مصافحہ اور بغلگیری کے بھی دعوت کا کام ہوسکتا ہے۔ ذاتی ملاقاتوں میں دینی گفتگو، مذاکرے اور تعلیم و تبلیغ ہوسکتی ہے۔ اگر شرکاء محفل کا فاصلہ آپس میں تین چار فٹ سے زیادہ ہو تو ماسک کی کوفت سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ مصافحہ اگر گرم جوشی میں کر ہی لیاگیا ہے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جیب میں سینی ٹائزر کی شیشی رکھ لیں اور اس کااستعمال کریں۔ آنکھ، ناک اور زبان ہاتھ چھونے سے ویسے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ وہ اشخاص جو ساٹھ سال سے کم عمر ہیں اور کسی سنجیدہ عارضے کا شکار نہیں ہیں ان کو آگے آکر فریضہ دعوت و اقامت کے کام میں ایک نئی جان ڈالنی چاہیے۔ اس پُرآشوب او ر فتنوں سے بھرے دور میں جہاں آدمی ایک طرف خود غرضی ، خاندان کی دنیاوی ومعاشی فکر و خوف میں اُلجھا ہوا ہے وہیں اس کا دل اس مجموعی آفت و ابتلاء میں نرم بھی ہے۔ اعزاء میں کسی کی موت، نوکری یا کاروبار کی بندش اور مندی نے انسان کو تنہائی میں اپنی اوقات اور دنیا کی حقیقتو ں کے بارے میں بہت کچھ سوچنے پرمجبور کردیا ہے۔ ایک داعی جب ایسے وقت میںللہیت و اخلاص سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ سفر کرے گا اور اپنے حبیب و مدعو سے ملاقات کرے گا تو بات میں اثر اور دل سوزی بھی زیادہ ہوگی۔ نتائج تو اللہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں لیکن ایک اسلامی تحریک کا کارکن کیسے ان حالات میں سست اور غیر متحرک ہوسکتا ہے۔ وہ کیسے بھول سکتا ہے کہ لوگوں سے بغیر کسی دنیاوی غرض کے صرف اللہ کی خاطر ملنے کا اللہ نے کیااجر رکھا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے لیے آپس میں محبت کرنے والوں، ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنے والوں ، اور ایک دوسرے کو جا کر ملنے والوں ، اور (ایک دوسرے کی خیر کے لیے) اپنی قوتیں صرف کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہوگئی (صحیح ابن حبان، مسند احمد)۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو یہ حدیث قدسی بیان کرتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ بندے جو میری عظمت اور جلال کی وجہ سے آپس میں الفت و محبت رکھتے ہیں ان کے لئے نور کے منبر ہوں گے ان پر انبیا اور شہداء بھی رشک کریں گے۔(ترمذی)۔
امیر المؤمنین عمر الفارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ْ کا فرمان ہے کہ رسول اللہؐ نے اِرشاد فرمایا ’’بے شک اللہ کے بندوں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے،جو انبیا میں سے نہیں اور نہ ہی شہیدوں میں سے ہوں لیکن قیامت والے دِن اللہ کے پاس اْن کی رتبے کی انبیا اور شہید بھی تعریف کریں گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول ہمیں بتائیے کہ وہ لوگ کون ہیں ؟‘‘ تو اِرشاد فرمایاوہ(صِرف)اللہ کی خاطر محبت کرنے والے لوگ ہوں گے ، (کیونکہ ) اْن کے درمیان نہ تو (اِیمان کے عِلاوہ)کوئی رشتہ داری ہو گی اور نہ ہی کوئی مال لینے دینے کا معاملہ ، پس اللہ کی قَسم اْن کے چہرے پر روشنی ہی روشنی ہوگی اور وہ روشنی پر ہوں گے ، جب (قیامت والے دِن) لوگ ڈر رہے ہوں گے اور غم زدہ ہوں گے تو وہ نہ ڈریں گے ، اور نہ ہی غم زدہ ہوں گے۔(سْنن ابو داؤد)