فوجی عدالتوں کی طرف سے 196افراد کو دی گئی سزائیں کالعدم ‘ مزید 100سے زاید مقدمات کے ریکارڈ طلب

229

پشاور(خبرایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک)پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کی طرف سے196 افراد دی گئی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیاجب کہ مزید 100سے زیادہ مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔منگل کو عدالت میں تقریباً 300 سے زیادہ ایسی درخواستوں پر سماعت ہوئی جنہیں فوجی عدالت سے سزائیں سنائی گئی تھیں۔ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس نعیم انور پر مشتمل بینچ نے اس کیس کی سماعت کی۔درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل شبیر گگیانی ایڈووکیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان افراد فوجی عدالت کی طرف سے سزائے موت، عمر قید یا 14 سے 15 سال قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ ان لوگوں کو سزائیں کن بنیادوں پر سنائی گئیں تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ انہوں نے اقبال جرم کیا تھا۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ ان افراد کے اقبال جرم 8 اور10سال کی تاخیر سے کیوں ریکارڈ کیے ہیں، تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ان کی ’برین واشنگ‘ کی گئی اور ان کے ’ذہنوں سے جنت کا خواب نکالنا تھا‘ اس لیے بیان ریکارڈ کرنے میں تاخیر ہوئی ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل کے مطابق عدالت میں جو ریکارڈ پیش کیا گیا اس کے تحت فوجی عدالتوں کے پاس ان لوگوں کے مقدمات کے اختیارات اور ان کے خلاف باقاعدہ شواہد موجود نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کو9 سے 10سال حراست میں رکھا گیا تھا اور ان ملزمان کے خلاف صرف ان کا اقبال جرم تھا اور اقبال جرم کے بعد دوبارہ ان افراد کو فوج کے حکام کے حوالے کیا گیا تھا جو کہ آئین کے خلاف ہے۔شبیر گگیانی کے مطابق عدالت نے سماعت کے دوران کہا ہے کہ درخواست گزاروں کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں دیا اور صرف اقبال جرم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔شبیر گگیانی نے بتایا کہ اس طرح کے مقدمات سے ملتی جلتی درخواستوں پر پہلے بھی پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ منگل کی سماعت کے دوران جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق یہ افراد آئین کے آرٹیکل 12 کے تحت غیر قانونی حراست میں تھے اور ان افراد کے خلاف کوئی گواہ پیش نہیں ہوئے اور ناکافی شواہد کی بنیاد پر ان افراد کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔