بجٹ! اعداد و شمار کا ایک گورکھ دھندا

298

راشد منان
مالی سال 2020_21 کا بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا گیا اور قوم نے وہی کچھ دیکھا جو برسوں سے دیکھتی چلی آئی ہے اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران اور اس سے قبل شور ہنگامہ احتجاج اور پلے کارڈ ایک دوسرے پرسخت جملہ بازی پھر بجٹ تقریر کے عین درمیان یا اس سے قبل حزب اختلاف کا واک آئوٹ۔ گویا یہ ہر سال کے بجٹ اجلاس کا طے شدہ فارمولا ہے کہ کرنا تو وہی ہے جو ایک مجبور ، قرض دار اور غلام قوم کا وتیرہ اور ان کے آقائوں کا حکم ہے مگر چونکہ سب کو عوام اور خصوصاً اپنے ووٹرز کو مطمئن بھی کرنا ہے۔ لہٰذا ہر جماعت اپنی حد تک جو رول پلے کرنا چاہے کرلے۔ اس تازہ ترین بجٹ ہی کو دیکھ لیں پہلے خوب ہنگامہ کیا گیا اور پھر طے شدہ فارمولے کے عین مطابق بجٹ پیش ہو گیا اور یقین جانیے یہ اسی شور شرابے کے ساتھ منظور بھی ہو جائے گا، یہاں ایک اور خصوصی نکتہ کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ متکبر اعظم جو اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا تو کیا آنکھ ملانابھی پسند نہیں کرتے ان کی موجودگی میں اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوتے حزب اختلاف کے واک آئوٹ کے ساتھ ہی اسمبلی میں آن موجود ہوتے ہیں تسلی سے اپنی حاضری لگاتے ہیں اور پھر جب حزب اختلاف لکھے اسکرپٹ کے مطابق دوبارہ اجلاس میں شریک ہوتی ہے تو ان کی روانگی ہو جاتی ہے آپ ہر اہم ترین اجلاسوں کے ریکارڈ دیکھ لیں جن میں متکبر اعظم کی شرکت ضروری تھی انکی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے اسی فارمولے کا استعمال کیا گیاحزب اختلاف ہو یا صاحب اقتدار عوام کو اس طرح بیوقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
بجٹ پیش ہونے کہ بعد ہمیشہ کی طرح حکومت اس کے وزرا اور مشیران کی طرف سے اسے بہترین قرار دیتے ہیں جبکہ حزب اختلاف اپنے بیانات اور اجتماعات میں اسے بدترین اور عوام دشمن قرار دے کر نامنظور و مسترد کر دیتی ہے اور پھر یہی بجٹ اسمبلی میں تھورے بحث مباحثہ کے بعد منظور اور عوام کے سروں پر مسلط کردیا جاتا ہے ۔
مالی سال 2020_21 کے بجٹ کے دونوں موقف کا ایک اجمالی جائزہ کچھ اس طرح ہے حکومت وقت کے مطابق یہ بجٹ ہر لحاظ سے عوامی ہے اس بجٹ میں عوام پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ’’احساس پروگرام کی رقم میں اضافہ‘‘حکومتی اخراجات میں کمی اور انتہائی مضحکہ خیز بات یہ کہ مہنگائی میں کمی کی گئی ہے تعلیم ، صحت کے بجٹ میں اضافہ کیا گیا اور ود ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی ہے جبکہ کمزور طبقے کے لیے کورونا ریلیف پیکیج کی مد میں بہت کچھ رکھا گیا ہے اور دفاعی بجٹ کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا گیا ہے جو کے تقریباً 1300 ارب روپے ہے بقول عمران خان عوام کو جان لینا چاہیے کہ ان کی حکومت نے یہ بجٹ کتنی مشکل حالات میں بنایا ہے۔ حزب اختلاف کی تقریباً تمام جماعتوں نے اسے عوام دشمن بجٹ کہہ کر مسترد کر دیا بلاول ہوں یا شہباز شریف پی پی پی ہو یا پی ایم ایل نواز ان ہمدردان قوم نے قوم کے وسیع تر مفاد میں نہ تو بجٹ پیش کرنے والوں کا گھیراو کیا نہ ہی اسمبلی ہال کو تالا ڈال کر اس کے دروازے کے باہر دھرنا دیا جو ان کا جمہوری حق ہے اور نہ ہی کسی سوٹڈ بوٹڈ ویل آف حکومتی وزرا اور ان کے مشیران کے گریبان پکڑے اور نہ ہی ان کا سر پھاڑا جبکہ یہی لوگ اپنے ووٹرز اور سپورٹرز سے ہر مشکل وقت میں اپنے لیے اس بات کی توقع رکھتے ہیں اور یہ عوام ان کے لیے یہ سب کرتے بھی ہیں ان پر ڈنڈے بھی برستے ہیں آنسو گیس کے شیلوں سے ان کی تواضع کی جاتی ہے واٹر کینن سے انہیں دھویا بھی جاتا ہے اور انہیں مارتے پیٹتے پولیس وین پر بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر حوالات تک ان کی خوب آو بھگت کی جاتی ہے مگر ان کے ووٹوں سے منتخب صاحب اقتدار ہوں کہ حزب اختلاف خالص لکھنوی انداز میں صرف ایک دوسرے کے خلاف صرف تو تڑاخ کر کے اپنا حق نمک ادا کر دیتے ہیں انہیں تو بس پانچ سالہ مدت مکمل کرنا ہوتی ہے کون سے عوام اور کہاں کے عوام ؟ میاں وقت پورا کرو کھائو پیو موج اڑائو ۔نہ تو کسی میں جرأ ت ہے اور نہ ہی کسی کی مجال کہ وہ معزز ایوان میں عوام کی رہنمائی کرتے ہو ئے ان چند سوالات کا جواب مانگے جو مجبور اور بیکس عوام کی طرف سے آج کل سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے کہ دفاعی بجٹ کے لیے مختص رقم صحت و تعلیم سے کئی گنا زیادہ کیوں ؟ اور ایک زرعی ملک میں زراعت کے بجٹ کو دفاع کے مقابلے میں کم کیوں رکھا گیا؟ اپنے بچے پڑھانے کے لیے صرف 30 ارب مگر دشمن کے بچوں کو پڑھانے کے لیے 1289ارب روپے کیوں مختص ہوے ؟ اور جن کے لیے مختص ہوئے انہوں نے گزشتہ سال کی طرح اس سال یہ ایثار کیوں نہیں کیا؟ کہ ہم اس سال بھی اپنے دفاعی بجٹ میں کورونا کی اس موذی وبا کے دور میں کوئی اضافہ نہیں چاہتے کیونکہ سال رواں گزشتہ سال کے بہ نسبت اس بات کا زیادہ متقاضی ہے اور یہ کہ ہم اپنی دفاعی ضرورت کے ساتھ اپنے بنائے ہوئے دفاعی سازو سامان کی فروخت سے اپنے بجٹ کو پورا کریں۔ پاکستان شپ یارڈ جس کا نام شاید ہماری نئی نسل کو معلوم بھی نہ ہوگا جیسے ادارے کو دوبارہ بحال کریں گے تاکہ ہم اپنے جہاز ماضی کی طرح خود اپنے ملک میں تیار کریں نہ کہ برادر ملک ترکی میں۔ کورونا نے اگر ملکی معیشت تباہ کی ہے تو ٹڈی دل کے حملوں نے ہماری زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔
معزز عدلیہ کی طرف سے گردانے گئے صادق اور امین اورعوام کے ہمدرد و غمخوار وزیر اعظم جو ان کے ایک چاپلوس وزیر کے بقول عوام کے درد میں بھوکے رہتے ہیں نے جن پچاس لاکھ گھروں کی بات کی تھی بجٹ میں اس کا ذکر بھی مبہم انداز میں کیا گیا ؟ رہی ایک کروڑ نوکریوں کی بات تو وہ اس لیے نہیں کرتا کہ جو پاکستان اسٹیل کے ملازمین کی نوکری بحال نہیں رکھ سکتے وہ نئی نوکریاں کیسے دے سکتے ہیں؟ ایک اور اہم بات اس بجٹ میں ملک ریاض کی اس رقم کو بھی آمدن میں کہیں نہیں شامل کیا گیا جو حکومت برطانیہ نے ان سے وصول کر کے حکومت وقت کے حوالے کی تھیں اور نہ ہی ملک کے ایک سینئر صحافی کا وہ الزام جنہوں نے بغض نواز میں یہ فرمایا تھا کہ نواز شریف 500 ملین ڈالرز ادا کر کے ملک سے باہر گئے ہیں جس میں سے 445 ملین ڈالرز اسٹیٹ بینک میں جمع ہوئے اس بجٹ میں اتنی بڑی رقم کا بھی کوئی ذکر نہیں۔
رہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا معاملہ تو اس پر بہت زیادہ واویلا اس لیے سمجھ سے باہر ہے کہ ملک میں نجی ملازمین کی تعداد ان سے کئی گنا زیادہ ہے ان کو تو ہر سال کے بجٹ میں کچھ بھی نہیں ملتا جبکہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں سرکاری ملازمین کے برعکس اپنا خون پسینہ زیادہ بہاتے ہیں ان کو علاج معالجہ پنشن وغیرہ کی کوئی سہولت کبھی میسر نہیں رہی۔ سوشل سیکورٹی اور ای او بی آئی میں ان کی جمع رقم بھی انہیں پوری نہیں ملتی مذکورہ سرکاری ملازمین کی رشوت ستانیاں اس کا سبب ہیں۔
الغرض ترقی پزیر ممالک ہوں کہ ترقی یافتہ ہر ملک کا بجٹ ایک فریب کے سوا کچھ نہیں اعداد شمار کا یہ گورکھ دھندا نہ بنانے والوں کی سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی اسے پیش کرنے والوں کی۔