جمہوری دور میں فوجی عدالتیں کیوں؟

357

پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے تقریبا دو سو افراد کو دی گئی سزائیں کالعدم قرار دے کر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ سو سے زاید مزید مقدمات کی تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔عدالت میں بتایا گیا کہ ملزمان کو آٹھ اور دس سال قید کرنے کے بعد ان سے اقبال جرم کروا کر انہیں سزائیں سنائی گئیں اور اقبال جرم کے علاوہ اور کوئی شہادت نہ تو پیش کی گئی اور نہ ہیں انہیں فیئر ٹرائل کا موقع دیا گیا۔ پشاور ہائی کورٹ اس سے قبل بھی فوجی عدالتوں کی سزاؤں کو کالعدم قرار دے چکی ہے ۔ سب سے پہلا سوال ہی یہ ہے کہ پورا عدالتی نظام موجود ہونے کے باوجود خصوصی عدالتوں کی صورت میں متوازی عدالتی نظام کیوں ۔ خصوصی عدالتوں کی موجودگی کا مطلب ہی یہ ہے کہ خصوصی عدالتیں قائم کرنے والوں کی نظر میں موجودہ عدالتی نظام قطعی طور پر معتبر نہیں ہے ۔ اگر خصوصی عدالتیں اس وجہ سے قائم کی گئی ہیں کہ موجودہ عدالتی نظام میں فیصلے تاخیر سے ہوتے ہیں تو پھر اصولی طور پر ججوں کی تعدادمیں اضافہ کرنا چاہیے ۔ اب تک تو یہ صورتحال ہے کہ ماتحت عدالتوںمیں ججوں کی اسامیاں برسوں خالی رہتی ہیں اور انہیں پُرکرنے کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ ججوں اور متعلقہ عملے کی تعداد میں بھی اُسی حساب سے اضافہ ہونا چاہیے مگر اس طرف بھی کسی کی توجہ نہیں ہے ۔ خصوصی عدالتیں چاہے انسداد دہشت گردی کی ہوں یا پھر احتساب کی ، دیکھا یہی گیا ہے کہ ان کے فیصلے انصاف کے معیار پر پورے نہیں اترتے اور اعلیٰ عدالتوں میں اپیل میں جاتے ہی ان عدالتوں کے سارے فیصلے یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خصوصی عدالتوں کا قیام سرکاری رقوم کے ضیاع کے علاوہ وقت بھی ضائع کرنے کے مترادف ہے ۔ یوں تو ماتحت عدالتوں کی حالت زار بھی کچھ زیادہ قابل رشک نہیں ہے اور یہ عدالتیں فیصلے کرنے میں دسیوں برس لے لیتی ہیں اور پھر جو فیصلے دیے جاتے ہیںوہ بھی اعلیٰ عدالتوں میں جا کر تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ تاہم ان عدالتوںمیں کم از کم وکلاء صفائی کو تو موقع دیا جاتا ہے اور شواہد پیش کیے جاتے ہیں ۔ فوجی عدالتوں کا معاملہ تو بالکل ہی مختلف ہے ۔ ان عدالتوں میں نہ تو وکیل صفائی کو پیش ہونے کی اجازت ہوتی ہے اور نہ ہی ملزم کو مجرم ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ، بس ایک فوجی افسر پر مشتمل عدالت پہلے سے ایک طے شدہ ذہنیت کے ساتھ سماعت کرتی ہے اور سزا سنا دیتی ہے ۔ فوجی عدالتیں ویسے بھی مارشل لا کی یادگار ہوا کرتی تھیں اور ان کے دیے گئے فیصلوں پر ہمیشہ ہی تنقید کی جاتی رہی مگر ایک جمہوری دور حکومت میں فوجی عدالتوں کی موجودگی خود ایک سوالیہ نشان ہے ۔ غلط فیصلے کرنے کی جتنی ذمہ داری خصوصی عدالتوں پر عاید ہوتی ہے ، اس سے زیادہ ذمہ داروہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ کیا ہی بہتر ہو کہ اس بارے میں ایک دفعہ یکسوئی کے ساتھ فیصلہ کرلیا جائے کہ آئندہ کوئی خصوصی عدالت قائم نہیں کی جائے گی بلکہ اگر ضرورت ہوگی تو ججوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا ۔ اس بارے میں ہم پہلے بھی کئی مرتبہ عرض کرچکے ہیں کہ فیصلوں کے غیر شفاف ہونے اور ججوں و عدالتی عملے کے اثاثوں میں ان کی تنخواہوں سے کہیں زیادہ ہونے نے ججوں کی غیر جانبداری پر کئی سوالیہ نشانات اٹھائے ہیں ۔ عدالتی نظام میں اصلاح کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ جج کے منصب پر فائز ہونے سے قبل ہر شخص نے وکالت کی ہوئی ہوتی ہے اور وہ بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ ریکارڈ روم سے فائل لانے ، پیشی لگوانے ، بیلف سے سمن کی تعمیل کروانے وغیرہ وغیرہ میں کس طرح سے پہیے لگائے جاتے ہیں تو جب یہ وکیل جج کے منصب پر فائز ہوتے ہیں تو پھر سب سے پہلے عدالتی نظام کی اصلاح کیوں نہیں کرتے ۔ اگر عدلیہ ہی درست ہوجائے تو معاشرے کے 80 فیصد مسائل ویسے ہی درست ہوجائیں ۔ اس صورت میں عدلیہ پر کی جانے والی تنقید اپنی جگہ درست ہے کہ جو جج عدلیہ میں کرپشن ختم نہیں کرسکتا وہ معاشرے سے کس طرح کرپشن کا قلع قمع کرے گا ۔ ایک وقت تھا کہ جب جج کی جانب سے عدالت میں طلب کرنے پر ہی افسران کانپنے لگتے تھے اور عدالت میں پیشی سے قبل ہی سارے معاملات درست کرلیا کرتے تھے ۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ جج فیصلے بھی دے دیں تو ڈھٹائی سے انہیں ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے ۔ عدالت میں جان بوجھ کر غلط اعداد و شمار پیش کرکے عدالت کو گمراہ کیا جاتا ہے اور ایسے افراد کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ مثل مشہور ہے کہ جج نہیں ان کے فیصلے بولتے ہیں ۔ اب تو اس کے بالکل الٹ صورتحال ہے کہ فیصلے ہو کر نہیں دیتے ، اگر فیصلہ کر بھی لیا جائے تو وہ لامحدود مدت کے لیے محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ مگر سماعت کے دوران جج خوب خوب ریمارکس دیتے ہیں ۔ دسیوں ایسے فیصلے موجود ہیں ، جن کے بارے میں اعلیٰ ترین عدلیہ نے واضح احکامات دیے مگر ان پر انتظامیہ نے جان بوجھ کر عمل نہیں کیا ۔ ایسی صورتحال میں عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد اور اعتبار دونوں بری طرح مجروح ہوئے ہیں ۔ اگر پاکستان کو کسی طبقاتی کشمکش سے آزاد رکھنا ہے تو پھر میرٹ پر فیصلوں کو یقینی بنانا ہوگا۔ اگر عدالتوں نے انصاف نہیں دیا توپھر فیصلے سڑکوں پر ہوں گے جوہر گز بھی قابل رشک صورتحال نہیں ہے ۔