سندھ کا بجٹ قابل فخر یا باعث شرم

226

سندھ حکومت نے بھی بجٹ پیش کر دیا۔ بڑے بڑے کام کیے ہوں یا نہیں وفاق کو آئینہ دکھانے کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا۔ ترقیاتی بجٹ بھی ہے جو 209 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ مدات کے اعتبار سے ہر شعبے کے لیے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ زرعی شعبہ ہو یا تعلیم وصحت۔ آبپاشی ہو یا ٹڈی دل اور ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ وغیرہ سے یہاں تک کہ خسارہ بھی دکھایا گیا ہے۔ ہر اعتبار سے روایتی بجٹ ہے۔ اگر ایک ایک کرکے چیزوں کو دیکھا جائے تو سندھ میں ترقیاتی بجٹ 209 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ اس سے قبل بھی ترقیاتی بجٹ رکھا جاتا رہا ہے۔ شاہراہوں اور ٹرانسپورٹ کے لیے رقم رکھی جاتی رہی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ بیان کر رہے ہیں کہ مشکل حالات کے باوجود 8 ویں بار بجٹ پیش کرنے پر فخر ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فخر کس بات پر۔ سندھ تو وہ صوبہ ہے جہاں بلا روک ٹوک پیپلز پارٹی کی حکومت مسلسل چلی آرہی ہے۔ کبھی کبھار کسی اور کی حکومت آجاتی ہے اس میں بھی ان ہی کے لوگ مستعار لیے جاتے ہیں۔ 1970ء سے اب تک پیپلز پارٹی کی نصف درجن سے زیادہ حکومتیں بن چکی ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ کسی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر میں ڈھنگ کا اسپتال نہیں، تعلیمی ادارے نہیں، جہاں تعلیمی ادارے ہیں وہاں اساتذہ نہیں۔ اور کاغذوں میں جو تعلیمی ادارے ہیں ان کے اساتذہ طلبہ اور عمارت سب گھوسٹ ہیں۔ بھوتوں کے اس کاروبار میں شریک لوگوں کو کیا کہا جائے؟؟ آج کل کورونا نے صحت کی سہولیات کے حوالے سے تسلسل کے ساتھ حکمرانی کرنے والوں کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ تازہ ترین واقعہ گڑھی یٰسین کا ہے جہاں اسپتال سے میت لے جانے کے لیے ایمبولینس نہیں ملی تو میت گدھا گاڑی پر گھر لے جانا پڑی۔ یہ علاقہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کا ہے۔ وہ اب تک خاموش ہیں جیسے یہ معمول ہو۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ کراچی جیسے شہر میں اسپتالوں میں مریضوں کے لیے اسٹریچر اور عملہ نہیں ہے۔ کہیں بھنگی کی مدد سے کرسی پر بٹھا کر مریض کو آئی سی یو منتقل کیا جاتا ہے جس کا ذکر جماعت اسلامی کے رکن سندھ اسمبلی نے اپنی تقریر میں بھی کیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے 8 بجٹ پیش کیے لیکن آٹھ بجٹ پیش کرنا قابل فخر کارنامہ نہیں ہے بلکہ ان 8 بجٹوں کے بعد عوام کو کیا ملا؟ عوام کراچی اور حیدرآباد جیسے شہروں میں پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔ بجلی غائب ہے، سڑکیں غائب ہیں، اسٹریٹ لائٹس نہیں ہیں، کچرا نہیں اٹھتا۔ کس کس چیز پر فخر کیا جائے۔ مراد علی شاہ صاحب نے تو کہہ دیا کہ مسلسل 8 بجٹ پیش کرنے پر فخر ہے لیکن ان کے ان 8 بجٹوں اور اس سے پہلے کے بجٹوں کے نتیجے میں عوام کے مشکل حالات مزید مشکل ہو گئے ہیں۔ رقم مختص کرنا اور منصوبوں کا اعلان کرنا کوئی کارنامہ نہیں ہے بلکہ عوام کو ریلیف دینا اصل مسئلہ ہے۔