نیاز مندانہ بجٹ

312

بجٹ ہر سال پیش کیا جاتا ہے اور بجٹ کی تیاری میں قوم کے خون پسنے کی کمائی کو بری طرح برباد کیا جاتا ہے شاید اسی کا نام جمہوریت ہے یہی جمہوریت کا حسن ہے بادشاہوں کے دور میں بغیر بجٹ کے حکومت چلائی جاتی تھی اور قومی خزانہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوتا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ بجٹ کیوں پیش کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد کیا ہوتا ہے اصولی طور پر بجٹ کے تین ہی مقاصد ہوتے ہیں پہلا مقصد آنے والی حکومت میں عوام کو کیا سہولتیں اور کیا مراعات دی جائیں گی۔ دوسرا مقصد عوام آنے والے وقت میں اپنا گھر کس طرح چلائیں گے۔ اپنے اہل خانہ کو کیا کیا خوشیاں دیں گے۔ مذہبی اور دیگر تہوار کس انداز میں منائیں گے، بچوں کے مستقل کے بارے میں بھی سوچ بچار کیا جاتا ہے۔ تیسرا مقصد عوام کو ملازمتیں دینے کے لیے کن کن صنعتوں کو فروغ دیا جائے گا۔ اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کیا پالیسی اختیار کی جائے گی۔ اگر ہم ان تین مقاصد کو سامنے رکھ کر تحریک انصاف کے بجٹ پر غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ یہ بجٹ بھی احساس پروگرام کی دوسری قسط ہے ہمارے خیال میں بجٹ کی تیاری میں میڈیا، سیاسی مبصرین اور عوام کا بھی عمل دخل ہے۔
تبدیلی تبدیلی کا اتنا شور مچایا گیا کہ یہ لفظ وزیر اعظم عمران خان کی چڑ بن گیا۔ کہتے ہیں جب کوئی بات بار بار دہرائی جائے تو لوگ اسے سچ سمجھتے ہیں اور جس کے متعلق بات کی جائے وہ رفتہ رفتہ نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ حکیم صاحب کے مطب میں چند مریض اور ایک پروفیسر بیٹھے ہوئے تھے ادھر سے بچوں کا ایک غول گزرا ان کے پیچھے ایک بزرگ خاتون گزریں۔ بچے نانی انڈے، نانی انڈے کا شور مچا رہے تھے اور بزرگ خاتون بچوں پر پتھروں اور گالیوں کی بوچھاڑ کر رہی تھیں، حکیم صاحب کہنے لگے بعض لوگوں کو پاگل بننے کا جنون ہوتا ہے اس خاتون ہی کو دیکھ لو بچے بچے نانی انڈے، نانی انڈے، چلا رہے ہیں کہ یہ ان کی آوازوں پر ہی غو ر نہ کرے، بچے تھک ہار کر چلانا ہی چھوڑ دیں گے۔ پروفیسر صاحب نے کہا حکیم صاحب یہ جنونی ہے، نفسیاتی عارضہ ہے۔ بچوں نے نانی انڈے، نانی انڈے کہہ کر بچاری کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے جب تک بچے نانی انڈے کا شور نہ کریں بڑی بی کی طبیعت خراب رہے گی۔ حکیم صاحب نے کہا پروفیسری ہی کرو کہ جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔ دوسرے دن پروفیسر صاحب نے ایک بچے سے کہا حکیم صاحب سے اچار لے آئو۔ بچے اچار لینے گیا تو حکیم صاحب نے کہا اچار نہیں ہے اسی طرح پروفیسر صاحب نے یکے بعد دیگرے بہت سے بچے اچار لینے کے لیے بھیجے شام کو حکیم صاحب بچوں کے پیچھے پتھر اٹھائے گالیوں میں شاعری فرما رہے تھے۔ پروفیسر صاحب نے حکیم صاحب کو سمجھایا کہ جب تک آپ بچوں کو گالیاں دینا نہیں چھوڑے گے بچے اچار اچار کی رٹ لگانا نہیں چھوڑیں گے۔ حکیم صاحب نے چند دن آرام کیا اور بچوں کے ساتھ پیار محبت کا سلوک کرنے لگے نتیجتاً بچے بھی سدھر گئے۔
حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ حکومت کا رویہ تو نہیں بدلے گا اور عوام بھی اسی ڈگر پر گامزن رہے گے لیکن یہ ماننا پڑے گا، یہ وزیر اعظم نے تبدیلی کا جو وعدہ کیا تھا پورا کیا ہے۔ 72برسوں میں جو کام حکومت نہ کرسکی تحریک انصاف نے کردیا بجٹ میں پنشن اور تنخواہوں میں اضافہ نہ کرکے۔۔۔! واقعی یہ وزیر اعظم عمران خان کسی سے نہیں ڈرتے شنید ہے کہ حکومت بجٹ کے بعد ایک ایسا بل لائے گی جس سے پنشن یافتہ بل بلا اٹھے گے۔ بل میں ایک پاکستانی کی عمر کا تعین کیا جائے گا اور اس عمر کے بعد اس شخص کو مردہ تسلیم کر لیا جائے گا ظاہر ہے کہ مردہ کو پنشن لینے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ اقوام عالم کی تاریخ میں پاکستان کی کیا اہمیت ہوگی اس مصرعے پر ہم گراہ نہیں لگا سکے مگر یہ ضرور کہ سکتے ہیں کہ جنرل نیازی کا بھارتی فوج کے سامنے نیاز مندانہ انداز کو دنیا کا کوئی بھی تاریخ دان نظر انداز نہیں کر سکتا اور دوسرا واقعہ وزیراعظم عمران خان کا 2020-21 کا بجٹ ہے جو تاریخ عالم میں حیران کن بن جائے گا۔ کوئی بھی جمہوری حکمران ایسی جرأت کا اظہار بھی نہیں کرسکتا مگر اس واقعے پر لکھنے سے پیش تر مورخ کو یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وزیر اعظم عمران خان جمہوری حکومت کے حکمران تھے یا کسی روحانی ایلفی کا کرشمہ تھے۔