کوٹا سسٹم یا ’’کھوٹا سسٹم‘‘؟

651

سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بڑے طمطراق سے کہا ہے کہ اسلام آباد سندھ کو اپنی کالونی نہ سمجھے۔ آزاد انسان اسی طرح سوچتا ہے مگر آزاد انسان نہ خود کسی کی کالونی بننا پسند کرتا ہے نہ کسی کو اپنی کالونی بنانا پسند کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سندھ کے وزیر اعلیٰ آدھے آزاد انسان ہیں۔ یعنی انہیں خود تو اسلام آباد کی کالونی بننا پسند نہیں مگر انہوں نے سندھ کے شہری علاقوں بالخصوص کراچی کو اپنی کالونی بنایا ہوا ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ اسے 18ویں ترمیم کے تحت صوبائی خود مختاری حاصل ہے مگر وہ کراچی کی شہری حکومت کو بلدیاتی خودمختاری دینے پر آمادہ نہیں۔ یہ کراچی کو اپنی کالونی بنانے کا عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ لیکن بلدیاتی خود مختاری تو کراچی کو کالونی بنانے کی چھوٹی مثال ہے۔ سندھ کے حکمرانوں نے 1970ء کی دہائی سے پورے شہری سندھ پر کوٹا سسٹم مسلط کرکے پورے شہری سندھ اور اس کی نئی نسلوں کے اقتصادی مستقل کو اپنی کالونی بنایا ہوا ہے۔
تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو کوٹا سسٹم پر سندھیوں اور مہاجروں دونوں نے انصاف کا رویہ اختیار نہیں کیا۔ مہاجر نوجوانوں سندھی نوجوانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے اور سندھی نوجوان میرٹ پر ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ چناں چہ دس پندرہ یا بیس سال کے لیے سندھی نوجوانوں کو ملازمتوں میں کوٹا سسٹم کا تحفظ فراہم کرنا ضروری تھا۔ چناں چہ جو مہاجر یہ سمجھتے ہیں کہ کوٹا سسٹم ہونا ہی نہیں چاہیے تھا وہ انصاف کی بات نہیں کرتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوٹا سسٹم کو دو دہائیوں سے آگے نہیں جانا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے سندھ کی قیادت نے کوٹا کو دائمی بنادیا۔ جنرل ضیا الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر ظلم کیا۔ انہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران دیہی سندھ میں طاقت کا غیر معمولی استعمال کیا۔ اس سے سندھ میں جنرل ضیا کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ چناں چہ جنرل ضیا نے کوٹا سسٹم ختم کرنے کے بجائے اس کی مدت بڑھادی۔ اس طرح ’’کوٹا سسٹم‘‘ ایک وقت کے بعد ’’کھوٹا سسٹم‘‘ بن گیا۔ اس سسٹم کا مقصد دیہی سندھ کو معاشی انصاف فراہم کرنا تھا مگر یہ نظام دائمی بن کر شہری سندھ کے ساتھ معاشی ناانصافی کی ایک بہت بڑی علامت میں ڈھل گیا۔
کوٹا سسٹم مذہب اور زندگی کے ہر بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ مذہب اور زندگی کا ایک بڑا اصول اہلیت ہے۔ روحانی اہلیت، اخلاقی اہلیت، علمی اہلیت، تعلیمی اہلیت مگر کوٹا سسٹم اہلیت کی نفی کرتا ہے اور نااہلیت کو اہلیت پر فوقیت دیتا ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ حکمران کو یا تو فلسفی بنادو یا فلسفی کو حکمران سیاسی مسئلے کا یہی ایک حل ہے۔ اس کے برعکس کوٹا سسٹم کہتا ہے کہ نااہل کو حکمران طبقے کا حصہ بنادو۔ نااہلیت کو سر کا تاج بنالو۔ نااہلیت پر اصرار کرو۔ نااہلیت کو میرٹ قرار دو۔ نااہلیت کو عزت دو۔ سندھ کا حکمران طبقہ سیدنا علیؓ کو بہت مانتا ہے۔ سیدنا علیؓ کا قول ہے کہ زندگی کفر کے ساتھ بسر ہوسکتی ہے مگر ناانصافی کے ساتھ نہیں۔ اس کے برعکس کوٹا سسٹم وضع کرنے والوں کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت علیؓ بیشک ناراض ہوں کوٹا سسٹم کی ناانصافی کو بہرحال ختم نہیں ہونا چاہیے۔ معاشرے اور ریاست میں اہلیت کا بول بالا ہوتا ہے تو معاشرہ اور ریاست طاقت ور ہوتے ہیں۔ ان کے حسن و جمال میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کے ساتھ شہریوں کا تعلق مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے برعکس معاشرے اور ریاست میں نااہلیت کی پوجا ہوتی ہے تو معاشرہ اور ریاست کمزور پڑنے لگتے ہیں اور ان کے ساتھ شہریوں کا تعلق کمزور پڑنے لگتا ہے۔ معاشرے میں اہلیت کو نوازا جاتا ہے تو افراد معاشرہ میں ’’محنت‘‘ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ معاشرے میں اہلیت کی تذلیل ہوتی ہے تو لوگ محنت سے بھاگنے لگتے ہیں۔ غور کیا جائے تو کوٹا سسٹم نے انصاف، اہلیت اور محنت کے تصورات کو بے توقیر کرکے رکھ دیا ہے۔
سندھ کے حکمرانوں کا دعویٰ ہے کہ انہیں دیہی سندھ کی عزت بہت پیاری ہے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ کے حکمران پچاس سال سے دیہی سندھ کی عزت سے کھیل رہے ہیں۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت یہ ہے کہ کوٹا سسٹم اپنی اصل میں ایک ’’بیساکھی‘‘ ہے اور بیساکھی صحت مند لوگ نہیں معذور استعمال کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پیپلز پارٹی کی قیادت نے دیہی سندھ کے نوجوانوں کو کوٹا سسٹم کی بیساکھی پکڑا کر انہیں اپنے امکانات کے اظہار سے محروم کردیا ہے۔ انہیں محنت سے بے نیاز بنادیا ہے۔ انہیں لگتا ہے پڑھو نہ پڑھو، محنت کرو نہ کرو اچھا رزلٹ لائو یا نہ لائو، اہلیت پیدا کرو نہ کرو کوٹا سسٹم سے ملازمت تو مل ہی جائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی قیادت نے دیہی سندھ کی گزشتہ پانچ چھ نسلوں کو کوٹا سسٹم کے خنجر سے ذبح کردیا ہے۔ ہم نے آج سے پندرہ سال پہلے کوٹا سسٹم کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہماری زندگی میں پبلک سیکٹر سکڑ رہا ہے اور نجی شعبے کا کردار بڑھ رہا ہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم ہمیں روزگار کے چند ہزار مواقع فراہم کرسکتا ہے مگر نجی شعبے میں کوئی کوٹا سسٹم موجود ہی نہیں ہوتا۔ چناں چہ پیپلز پارٹی کی قیادت دیہی سندھ کے نوجوانوں کو روز بروز پھیلتے ہوئے نجی شعبے کے لیے نااہل بنانے میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ دیہی سندھ کے لوگوں سے محبت کرتی ہے۔
سندھی اور مہاجر دائمی حلیف تھے۔ سندھیوں نے مہاجروں کا جس طرح خیر مقدم کیا اس کی مثال نہیں ملتی لیکن پیپلز پارٹی کی عاقبت نااندیش قیادت نے سندھیوں اور مہاجروں کو کوٹا سسٹم کی بنیاد پر دائمی حریف بنا کر کھڑا کردیا۔ سندھی مہاجر کشمکش نے الطاف حسین جیسی فسطائی قیادت اور ایم کیو ایم جیسی فسطائی جماعت کو خلق کیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے سندھی مہاجر تعلقات کو زہر آلود کردیا۔ سندھ میں ترقی کے غیر معمولی امکانات تھے۔ کراچی ملک کی واحد بندرگاہ تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا صنعتی مرکز تھا۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا معاشی اور مالیاتی مرکز تھا۔ چناں چہ سندھ معاشی ترقی کے دائرے میں پورے ملک کے لیے ایک مثال بن کر اُبھر سکتا تھا۔ وہ تمام صوبوں کے لیے ایک نمونے کا کردار ادا کرسکتا تھا۔ مگر کوٹا سسٹم سے پیدا ہونے والی سیاست اور سندھی مہاجر کشمکش نے سندھ کو پورے ملک کا قائد بننے سے روک دیا۔ رہی سہی کسر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی تباہ کن سیاست نے پوری کردی۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی کو قتل و غارت گری، ہڑتالوں، تالہ بندی اور بھتا خوری کا مرکز بنا کر کراچی کی روح، اس کی تہذیب ہی نہیں اس کے معاشی اور مالیاتی امکانات بھی سلب کرلیے۔ پاکستان کی فوجی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح کراچی کو 30 سال تک تباہ ہونے کے لیے آزاد چھوڑا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی اندرونی قوتیں کراچی اور سندھ کی تباہی کی آرزو منہ تھیں۔ بدقسمتی سے سندھی اور مہاجر قیادت کراچی اور سندھ کی تباہی کے سلسلے میں آلہ کار کا کردار ادا کرتی رہیں۔ آج سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ فرما رہے ہیں کہ اسلام آباد سندھ کو اپنی کالونی نہ سمجھے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جب سندھ کی قیادت سندھ کو ایک کالونی بننے دے گی تو پھر اسلام آباد سندھ کو ضرور اپنی کالونی بنائے گا۔
سندھی مہاجر نفرت کی سیاست سے سندھیوں کو کچھ ملا نہ مہاجروں کو اس سے کچھ نہ ہاتھ آیا۔ ایم کیو ایم کوٹا سسٹم کے خاتمے کا نعرہ لگاتی ہوئی نمودار ہوئی تھی مگر اس نے سندھ میں پیپلز پارٹی کے ساتھ چھ سات مرتبہ حکومت بنائی لیکن کوٹا سسٹم کے خاتمے کے لیے ایک قدم بھی نہ اُٹھایا۔ یہاں تک کہ اس نے کوٹا سسٹم کا نام بھی لینا چھوڑ دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایم کیو ایم کوٹا سسٹم کا نام صرف سیاست چمکانے کے لیے لیتی تھی۔ بلاشبہ سندھی مہاجر نفرت کی سیاست سے سندھیوں اور مہاجروں دونوں کو نقصان ہوا مگر نفرت کی یہ سیاست پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے بڑے کام آئی۔ پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کے خلاف بولتی ہے تو دیہی سندھ میں اس کا ووٹ بینک مضبوط ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے خلاف بیان داغتی ہے تو شہری سندھ میں اس کا ووٹ بینک مستحکم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے عام سندھی اور عام مہاجر اس ’’کھیل‘‘ کا شعور ہی نہیں رکھتے۔
ڈومیسائل ایک عام سی چیز ہے مگر سندھ میں ڈومیسائل کو بھی ’’میزائل‘‘ بنادیا گیا ہے۔ چناں چہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے عدالت عالیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ سندھ میں 3600 جعلی ڈومیسائلوں کا نوٹس لیں۔ سندھ میں کوٹا سسٹم نہ ہوتا تو کسی سندھی یا مہاجر کو جعلی ڈومیسائل بنانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی۔ ہم نے تو یہی پڑھا اور سنا ہے کہ رزق دینے والا اللہ ہے مگر سندھ میں کوٹا سسٹم چلانے والی پیپلز پارٹی کوٹا سسٹم کے ذریعے معاذاللہ ’’رزاق‘‘ بن کر بیٹھی ہے۔ اللہ پی پی پی پر رحم کرے۔

2