سوال: مندرجہ ذیل صورتوں میں عورت کیا کرے اور اس پر کیا لازم آتا ہے: (1)اگر عمرے کا پروگرام پہلے سے طے ہے اور روانگی کے دن ایام شروع ہوگئے، تو وہ کیا کرے، (2)احرام باندھ کر ایئرپورٹ پہنچا تو پتا چلا کہ چیک اِن یعنی بورڈنگ کا سلسلہ بند ہوگیا ہے یا جہاز کا دروازہ بند ہوگیا ہے یا معلوم ہوا کہ سیٹ کنفرم نہیں تھی، اب بظاہر اگلی فلائٹ 3دن بعد دستیاب ہوگی تو کیا کرے، اگر احرام کھول دے تو اس پر کیا لازم آئے گا، (3)ایک خاتون حج کا خطبہ اور نماز ظہر و عصر ادا کرنے کے بعد حائض ہوگئی، بقیہ ارکان کی ادائیگی کس طرح کرے گی؟
جواب: (1)عمرے پر روانگی سے پہلے ایام شروع ہوگئے، تو اس صورت میں اگر روانگی کی تاریخ آگے بڑھائی جاسکتی ہے تو بڑھالے، اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو عمرے کا غسل کرکے احرام باندھے اور مکہ مکرمہ جاکر پاک ہونے کا انتظار کرے، پاک ہوکر طواف وسعی کرے اور عمرہ مکمل کرے۔
(2)اگر احرام باندھ لیا، یعنی نیت کرلی تھی تو اب اْس احرام کو پورا کرنا لازم ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ گھر واپس آکر جہاز کی سیٹ ملنے تک حالتِ احرام میں رہے اور احرام کی تمام پابندیوں پر عمل کرتی رہے، سیٹ کنفرم ہونے پر روانہ ہوجائے۔ لیکن اگر احرام کھول دیا تو گنہگار ہوگی اور اْس پر دَم بھی واجب ہوگا اور عمرے کی قضا بھی لازم ہوگی۔ عازمین ِحج و عمرہ کے لیے مشورہ یہ ہے کہ وہ گھر سے غسل کرکے لباس احرام پہن کر چلے جائیں، مرد احرام کی چادریں ایئر پورٹ پر جاکر اور معمول کا لباس اتار کر بھی پہن سکتے ہیں، جب سیٹ کنفرم ہوجائے اور بورڈنگ کارڈ مل جائے تو دو رکعت نفل پڑھ لیں اور جب فلائٹ روانہ ہونے لگے یا روانہ ہوجائے تو نیت باندھ لیں اور تلبیہ پڑھ لیں، ورنہ بصورت ِدیگر واپس آجائیں اور نارمل لباس پہن لیں، چونکہ وہ مْحرم نہیں ہوئے تھے، اس لیے ان پر کچھ واجب نہیں ہوگا۔
(3)حج کے کل ایام پانچ ہیں: پہلا دن آٹھ ذوالحجہ: احرام میں داخل ہونے اور حج کی نیت کرنے کے بعد تَلبِیَہ پڑھنا، منیٰ کو روانگی، رات منیٰ میں قیام دوسرے دن یعنی نو ذوالحجہ کو: منیٰ میں نمازِ فجر ادا کرکے عرفات پہنچنا، خطبہ سن کر نمازِ ظہر وعصر ملاکر پڑھنا، غروبِ آفتاب کے بعد مزدلفہ روانہ ہونا، مزدلفہ میں مغرب و عشا ملاکر ادا کرنا۔ تیسرے دن دس ذوالحجہ کو: جمرہ عقبہ پر رمی، قربانی (حج تمتع یا قِران کا دَمِ شکر) کے بعد ایک پور کے برابر بال کترنا اور بیت اللہ جاکر طوافِ زیارت کرنا، سعی کرنا اور رات منیٰ میں گزارنا۔ چوتھے دن یعنی گیارہ ذوالحجہ کو: زوال کے بعد تینوں جمرات کی رمی کرنا، بارہ کی رات منیٰ میں رہنا سنت ہے۔ پانچویں دن (یعنی بارہ ذوالحجہ کو): زوال کے بعد تیسرے دن تینوں جمرات کی رمی پر حج مکمل ہوگیا، مکہ سے روانگی کے وقت طوافِ وداع واجب ہے۔
نو ذوالحجہ کوعرفات کے میدان میں وقوف (ٹھہرنا) حج کا رکنِ اعظم ہے، حیض ونفاس والی عورت اور جُنبی آدمی کا وقوف صحیح ہے، حج اداہوجائے گا، وقوفِ مزدلفہ، وقوفِ منٰی، رمیِ جمرات اور حجِ تمتّْع کی قربانی کے لیے طہارت شرط نہیں ہے، لہٰذا یہ واجبات حائض عورت حالتِ حیض میں بھی ادا کرسکتی ہے۔
طوافِ زیارت حج کا دوسرا رکنِ اعظم ہے، اسے طوافِ افاضہ اور طوافِ فرض بھی کہتے ہیں، اس کا وقت ساری زندگی ہے، لیکن دس ذوالحجہ کی طلوعِ فجر سے بارہ ذوالحجہ کے غروبِ آفتاب سے قبل اس کے اکثر چکر کرلینا واجب ہے۔ چونکہ حیض ونفاس بندے کی اپنی کسی تقصیر کے سبب نہیں ہوتا، بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہے، لہٰذا اللہ کی جانب سے عذر لاحق ہونے کی صورت میں تاخیر پر دَم یا کفارہ نہیں ہے۔ اگر حائض اور اس کے محرم کے لیے واپس روانگی میں تاخیر کی گنجائش ہے، تو وہ اپنی ریزرویشن منسوخ کرکے اسے مناسب وقت تک مؤخر کردیں اور حیض ختم ہونے پر غسل کرکے پاک ہوجائیں اور پھر طواف فرض ادا کریں، اس کے بعد حسبِ سہولت طوافِ وداع کرکے رختِ سفر باندھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر خدانخواستہ اس کی گنجائش اور سہولت نہ ہو تو حالتِ حیض میں طوافِ زیارت کرلیں اور حدودِ حرم میں کفارے کے طور پر بَدَنَہ (یعنی اونٹ یا گائے) کی قربانی دینی ہوگی، ویسے عذر من جانب اللہ کے لیے قانون میں رعایت ہونی چاہیے، کیونکہ یہ عبادت حج کا مسئلہ ہے اور مسلم حکومتوں کو اس سلسلے میں سہولت فراہم کرنی چاہیے، غیر مسلم ممالک سے آنے والے تو واپسی کی تقدیم وتاخیر کے معاملے میں خود مختار ہوتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سابق رزرویشن کی منسوخی اور نئی ریزرویشن کے لیے کچھ اضافی رقم دینی ہوتی ہے، لیکن مسلم حکومتوں کو اضافی رقم نہیں لینی چاہیے۔ سعی کے لیے طہارت لازمی نہیں بلکہ مستحب ہے، علامہ نظام الدینؒ معذور کے حج وعمرے کی سعی کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’اور اگر حیض ونفاس والی عورت اور جْنبی شخص (یعنی جس پر غسل واجب ہو) سعی کریں، تو (ان کا سعی کرنا) صحیح ہے (یعنی سعی کے لیے طہارت شرط نہیں)‘‘۔ (فتاویٰ عالمگیری، جلد اول،ص:41، ص:247) علامہ مفتی امجد علی اعظمیؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’مستحب یہ ہے کہ باوضو سعی کرے‘‘۔ (بہارِ شریعت، حصہ ششم، جلد1، ص:435)