ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق
فاتح مصر سیدنا عمرو بن العاصؓ کا شمار ’’دہاۃ العرب‘‘ میں ہوتا ہے، یعنی عرب کے ذہین ترین اور معاملہ فہم لوگوں میں۔ آپ ایک کامیاب منتظم، مدبر سیاست دان اور ایک تجربہ کار جرنیل تھے۔
عمرو بن العاصؓ مکے کے مشہور سردار اور دشمنِ اسلام عاص بن وائل کے بیٹے تھے اور خود بھی اسلام کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ حبشہ ہجرت کرجانے والے مسلمانوں کو وہاں سے واپس لانے کے لیے مشرکین نے جو وفد بھیجا اْس کے قائد عمرو بن العاصؓ ہی تھے۔ غزوئہ بدر، غزوئہ احد اور غزوئہ خندق میں عمرو بن العاصؓ نے کفارِ قریش کی طرف سے شرکت کی۔
عمرو بن العاصؓ دعوتِ اسلام کو روکنے میں ناکام ہونے کے بعد حبشہ چلے گئے کہ محمدؐ کی کامیابی کی صورت میں ان کا محکوم نہ بننا پڑے۔ خدا کی قدرت! سینکڑوں میل دور حبشہ جا کر نجاشی بادشاہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ بلاشبہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہے، جسے چاہے، جب چاہے، جہاں چاہے نواز دے۔ اسلام لانے کے بعد حبشہ میں رہنے کی ضرورت نہ رہی، چنانچہ بادشاہ سے اجازت لی اور واپس چلے آئے۔ مکہ کے قریب پہنچے تو خالد بن ولیدؓ سے ملاقات ہوگئی۔ خالد بن ولیدؓ قبولِ اسلام کے ارادے سے مدینہ منورہ جارہے تھے۔ عمرو بن العاصؓ، خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ مدینہ منورہ حاضر ہوکر رسول اللہؐ کی زیارت سے مشرف ہوکردرجۂ صحابیت پر فائز ہوئے۔ یہ تاریخ ِاسلام کا منفرد واقعہ ہے کہ کوئی شخص تابعی کے ہاتھ پر ایمان لایا اور بعد میں مرتبۂ صحابیت سے بھی مشرف ہوا۔
عمرو بن العاصؓ اور خالد بن ولیدؓ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ صفر 8 ہجری کا ہے۔ ان دونوں کے دائرئہ اسلام میں داخل ہونے پر رسول اللہؐ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے صحابہ سے فرمایا: ’’مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمھاری طرف اچھال دیا ہے‘‘۔
عمرو بن عاصؓ کی دانائی اور حرب و ضرب کی صلاحیتوں کے پیش نظر رسول اللہؐ نے ان کے اسلام لانے کے صرف چار ماہ بعد جمادی الثانی 8 ہجری میں انھیں ایک لشکر کا امیر بنا کر جہاد کے لیے روانہ کیا جو ’’سریہ ذات السلاسل‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس لشکر میں سیدنا ابوبکر صدیق، عمر فاروق اور ابو عبیدہ بن الجراحؓ جیسے اکابر صحابہ بھی شامل تھے۔ جب کہ فاتحانہ واپسی پر خود نبی مکرمؐ نے مدینے سے باہر تشریف لا کر ان کا استقبال کیا تھا۔ ترمذی کی ایک روایت کے مطابق رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’عمرو بن العاص بے شک قریش کے نیکو کاروں میں سے ہیں‘‘۔
رسول اللہؐ نے آپ کو عمان کا عامل مقرر فرمایا۔ عہد ِصدیقی میں بھی آپ عمان کے عامل رہے۔بعد ازاں انھیں تسخیرِ فلسطین کی ذمے داری سونپی گئی۔ اجنادین کے معرکے میں آپ نے90 ہزار مجاہدین کی کمان کی۔ یرموک کے فیصلہ کن معرکے میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا۔
طاعون عمواس
سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد میں 18 ہجری میں ملک شام کے شہر عمواس میں سخت طاعون پھیلا، جس نے پچیس ہزار مسلمانوں کی جانیں لے لیں جن میں لشکر کے امیر ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبلؓ بھی شامل تھے۔ ان دونوں کے بعد عمرو بن العاصؓ لشکر کے امیر مقرر ہوئے تو انھوں نے حسنِ تدبیر سے مسلمانوں کی جانیں بچائیں۔ انھوںنے مسلمانوں کو وبا والے علاقے سے فوراً ہٹا لیا اور پہاڑوں میں منتشر کر دیا۔اس سماجی دوری (Social Distancing) کے نتیجے میں جلد ہی مسلمان اس وبا سے محفوظ ہوگئے۔
عمرو بن عاصؓ کا اہم ترین کارنامہ مصر کی فتح ہے۔ سیدنا عمر فاروقؓ کے حکم سے آپ نے صرف چار ہزار جانبازوں کے ساتھ مصر کی سرحد عبور کی۔ اس فتح کا سب سے اہم معرکہ اسکندریہ کی فتح ہے جس کے بعد مقوقس شاہِ مصر نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی اور مصر کی تسخیر مکمل ہوگئی۔ مصر کے بعد عمر بن العاصؓ نے طرابلس بھی فتح کر لیا۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے عہد میں تحکیم کے معاہدے کے بعد عمرو بن العاصؓ (جو اس معاہدے میں سیدنا معاویہؓ کے مقرر کردہ ثالث تھے) کی طرف سے معاویہؓ کی خلافت کا اعلان کرنے پر آپ کی ذات متنازع ہوگئی۔ خارجیوں نے علیؓ اور معاویہؓ کے ساتھ آپ کو بھی قتل کرنے کی کوشش کی۔ سیدنا علیؓ شہید ہوگئے، سیدنا معاویہؓ پر اوچھا وار لگا، اس لیے وہ علاج معالجے سے بچ گئے۔ جب کہ عمرو بن العاصؓ اس دن طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے نمازِ فجر پڑھانے نہ جاسکے، اس لیے محفوظ رہے۔ آپ کی جگہ سیدنا حذافہ نے امامت کی اور وہ اس حملے میں شہید ہوگئے۔
عمرو بن العاصؓ کا انتقال یکم شوال 43ھ کو ہوا۔ آپ کی تدفین کہاں ہوئی اس بارے میں اختلاف ہے۔ ایک روایت کے مطابق فسطاط میں دارالامارتہ میں دفن کیے گئے۔ جب کہ استنبول (ترکی) میں ایک مسجد اور مزار بھی عمرو بن العاصؓ سے منسوب ہے۔ طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق آپ کا مزار جبلِ مقطم کے دامن میں مسجد سیّدی عقبہ بن عامر جہنی کے اندر ہے اور راقم کے نزدیک یہی راجح ہے۔