افکار سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ

203

امارت اور جماعت اسلامی
امارت کے باب میں بھی ہم کسی غلو کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں، ہماری یہ تحریک کسی شخصیت کے بل پر نہیں اٹھی ہے، جس کے لیے کسی خاص منصب کا دعویٰ کیا گیا ہو، جس کی کرامتوں اور الہامات اور تقدس کی داستانوں کا اشتہار دیا جاتا ہو، جس کی ذاتی عقیدت پر جماعت کی بنیاد رکھی گئی ہو اور جس کی طرف لوگوں کو دعوت دی جاتی ہو۔ دعووں اور خوابوں اور کشوف وکرامات اور شخصی تقدس کے تذکروں سے ہماری تحریک بالکل پاک ہے۔ یہاں دعوت کسی شخص یا اشخاص کی طرف نہیں ہے بلکہ اس مقصد کی طرف ہے جو قرآن کی رُو سے ہر مسلمان کا مقصد زندگی ہے۔ اور ان اصولوں کی طرف ہے جن کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ جو لوگ بھی اس مقصد کے لیے ان اصولوں پر ہمارے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں وہ مساوی حیثیت سے ہماری جماعت کے رکن بنتے ہیں۔ یہ ارکان ایک شخص کو اپنا امیر منتخب کرتے ہیں، نہ اس بنا پر کہ امارت اس کا کوئی ذاتی حق ہے بلکہ اس بنا پر کہ بہرحال منظم طریقے پر کام کرنے کے لیے ایک سربراہ کار ہونا چاہیے۔ یہ منتخب کردہ امیر معزول کیا جاسکتا ہے اور جماعت میں سے کوئی دوسرا شخص اس کی جگہ امارت کے لیے چنا جاسکتا ہے۔ یہ امیر صرف اسی جماعت کا امیر ہے نہ کہ تمام امت کا، اس کی اطاعت صرف انہی لوگوں پر لازم ہے جو اس جماعت میں شامل ہوں اور ہمارے ذہنوں میں ایسا کوئی تصور تک نہیں ہے کہ ’’جس کی گردن میں اس کی بیعت کا قلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرے گا‘‘۔ (شہادت حق)
٭…٭…٭
جماعت اسلامی کی حیثیت
خوب سمجھ لیجیے کہ ہماری حیثیت بعینہ اس جماعت کی سی نہیں ہے، جو ابتدائً نبی علیہ السلام کی قیادت میں بنتی ہے، بلکہ ہماری صحیح حیثیت اس جماعت کی ہے، جو اصل نظام جماعت کے درہم برہم ہوجانے کے بعد اس کو تازہ کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ نبی کی قیادت میں جو جماعت بنتی ہے وہ تمام دنیا میں ایک ہی اسلامی جماعت ہوتی ہے اور اس کے دائرے سے باہر صرف کفر ہی ہوتا ہے۔ مگر بعد میں اس نظام اور کام کو تازہ کرنے کے لیے جو لوگ اٹھیں، ضروری نہیں کہ ان سب کی بھی ایک ہی جماعت ہو۔ ایسی جماعتیں بیک وقت بہت سی ہوسکتی ہیں، اور ان میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ بس ہم ہی اسلامی جماعت ہیں اور ہمارا امیر ہی امیر المومنین ہے۔ اس معاملے میں ان تمام لوگوں کو، جو ہماری جماعت میں شامل ہوں غلو سے سخت پرہیز کرنا چاہیے، کیوں کہ بہرحال ہم کو مسلمانوں میں ایک ’’فرقہ‘‘ بننا نہیں ہے، خدا ہمیں اس سے بچائے کہ ہم اس کے دین کے لیے کچھ کام کرنے کے بجائے مزید خرابیاں پیدا کرنے کے موجب بن جائیں۔
(روداد جماعت اسلامی، اول)
٭…٭…٭
قومی گناہ
(صالحؑ کی) اونٹنی کو اگرچہ ایک شخص نے قتل کیا لیکن چونکہ پوری قوم اس کی پست پر موجود تھی اس لیے الزام پوری قوم پر عائد کیا گیا۔
ہر وہ گناہ جو قوم کی خواہش کے مطابق کیا جائے یا جس کے ارتکاب کو قوم کی رضا اور پسندیدگی حاصل ہو ایک قومی گناہ ہے، خواہ اس کا ارتکاب کرنے والا ایک فرد واحد ہو۔ صرف یہی نہیں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ جو گناہ قوم کے درمیان علی الاعلان کیا جائے اور قوم اسے گوارا کر لیوہ بھی قومی گناہ ہے۔
(تفہیم القرآن، تفسیر سورہ اعراف آیت 77)