ملکہ کوہسار مری اور اسلحہ کا رواج

285

سائرہ اقبال
میں کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کروں۔۔۔؟
کسی شخص کی نا حق جان لینا پوری انسانیت کی جان لینے کے مترادف ہے۔ قتل ہونے والا ابدی نیند سو کر اپنے مالک سے جا ملتا ہے مگر اس کے لواحقین سب کے ہاتھوں میں اس کا لہو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ کیونکہ یہی ہمارا نظام ہے۔ گولیاں چلیں، چلانے والے بھاگ نکلے، ان کو مفرور قرار دینے کے بعد بس انتظار ہی بچتا ہے کہ کب وہ گرفت میں آئے اور مرنے والے کے ساتھ انصاف ہو۔ ملکہ کوہسار مری جو اپنی خوبصورت وادیوں کی وجہ سے عوام الناس میں مقبول تھی۔ چند برس ہوئے اس وادی کو کسی کی نظر لگ گئی اور وہاں کی خوبصورتی و خوشنما رنگوں پر کلاشنکوف اور اسلحہ کا سایہ منڈلانے لگا۔ ایک کے بعد ایک واقعہ منظر عام پر آنے لگا اور ایسے واقعات جن کو لڑائی یا جھگڑا کہنا انصاف نہ ہو گا۔ گینگ کلچر کا رواج عام ہونا، غنڈہ گردی، ذمے دار کون؟ رائفل، کلاشنکوف جیسے اسلحے کا آسانی سے میسر ہونا، ذمے دار کون؟ سوال یہ نہیں اٹھتا ہے لڑائی ہوئی کیوں، جھگڑے کا کیا تھا؟ سوال یہ اٹھتا ہے جھگڑا ہوا تو اسلحہ کہاں سے آیا؟ اسلحہ کا استعمال اتنا عام اور آسان کیوں ہوا؟ عرصہ ہوا ان حسین وادیوں میں گینگ کلچر رواج پانے لگا۔ معمولی باتوں پر جھگڑا اور جان لینا عام ہو گیا۔ انصاف میسر نہیں، ایک کو سزا ہونا باقیوں کے لیے عبرت کا سامان ہو گا مگر انصاف کہاں سے ملے؟؟ حال ہی میں مری کے گائوں سندھیاں میں دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا۔ جمال نامی شخص نے کلاشنکوف سے اندھا دھند فائر کھول کر 5 لوگوں کو زخمی کر دیا۔ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد جن میں سے تین سگے بھائی تھے۔ زمین کی ملکیت پر جھگڑا مگر لڑائی جھگڑے میں ہاتھا پائی ہوتی ہے، ڈنڈے برسائے جاتے ہیں مگر نہتے لوگوں پر بنا دیکھے گولیاں برسا دینا انسانیت کی تذلیل ہے۔
شدید زخمیوں میں سے 1 بھائی (محمد عاقل) جانبر نہ ہو سکا جب کہ باقی گولیوں سے چھلنی اپنے بھائی کے دکھ میں انصاف کی اپیل لیے ہمارے سسٹم پہ نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ مقتول کی بیوہ اور تین بچے خالی آنکھوں سے ایک امید لیے بیٹھے ہیں کہ اب کی بار یہ قربانی، یہ جان نا حق نہ جائے گی۔ اس کو اور اس جیسے کئی خاندانوں کو سزا ضرور ملے گی۔ قتل کرنا، کسی ناحق مظلوم کی جان لینا تو ایک طرف مگر بات کی جائے اسلحہ رکھنے کی تو اسلحہ بغیر لائسنس کے رکھنا جرم ہے۔ اسلحہ اگر لائسنس سے رکھا جاتا ہے تو اس کا معیار ایسا ہونا چاہیے کہ جہاں اسلحہ رکھنے والا خود کو محفوظ محسوس کرے وہاں ایک بھاری ذمے داری بھی محسوس کرے کہ اسلحہ کا غلط استعمال دوسرے کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی زندگی میں بھی تلخی گھول سکتا ہے۔ مگر یہ سب بات ہے آگاہی کی، شعور کی اور ہمارے مضبوط نظام کی۔ مگر افسوس!!! اسلحہ رکھا بھی جاتا ہے اور اس کا غلط استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ باقی شہر اور علاقے تو ایک طرف مگر اس قسم کے واقعات وادی کوہسار میں معمول بنتے جا رہے ہیں۔ جو اس وادی کی خوبصورتی کو ایک طرف نظر لگا رہے ہیں جب کہ دوسری طرف سیاحت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ خوف و ہراس پھیلا رہے ہیں تاکہ لوگوں کو خوفزدہ کر کے اپنا راج قائم کر سکیں۔ کوئی بھی ہو قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہیں۔ یہ تب تک ہوتا رہے گا جب تک قاتل کو مجرم ٹھیرا کر کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا۔ ایک شخص کی موت نہیں ہوتی بلکہ پورا خاندان جیتے جی مارا جاتا ہے۔ اس واقعے کو 6 روز ہو گئے مگر قاتل پولیس کی گرفت میں نہ آ سکے۔ کیا قاتل قانون سے زیادہ طاقتور ہے یا قانون اتنا کمزور کہ ایک شخص کو نہ پکڑ پائے۔ یہ وہ سوال ہیں جو عرصہ دراز سے چلے آ رہے ہیں۔ مگر جواب کسی کے پاس نہیں!!!