احمد حاطب صدیقی
لو صاحبو! مفرحات کی دنیا کی روایت ساز اور رجحان ساز شخصیت طارق عزیز بھی ہم سے رُخصت ہولیے۔
روایات کیسے بنتی ہیں؟ کیسے بدلتی ہیں؟ کیسے بگڑتی ہیں؟ ایک پورا عہد کس طرح گزر جاتا ہے؟ زمانہ کیوں کر تبدیل ہوتا ہے؟ معاشرے کی وضع قطع اور تراش خراش میں تبدیلیاں کن غیر محسوس روزنوں سے در آتی ہیں؟ کوئی محسوس کرے تو پتا چلے نا!
بہت پرانی بات نہیں جب ہمارے ذرائع ابلاغ سے پیش کیے جانے والے تفریحی نشریے معلوماتی بھی ہوتے تھے اور تعلیمی بھی۔ ان سمعی و بصری نشریات کو پیش کرنے والوں میں پروفیسر حشمت اللہ لودھی، عظیم سرور، فائق بدایونی، قریش پُور، عبیداللہ بیگ، افتخار عارف، ضیاء محی الدین اور طارق عزیز جیسے شائستہ اور سلجھے ہوئے لوگ تھے۔ اتنے ہی منجھے ہوئے دوسرے لائق و فائق لوگ بھی اُس وقت ذرائع ابلاغ سے ہمیں سنائی اور دکھائی دیا کرتے تھے۔ دل تو اب بھی چاہتا ہے کہ ہم ویسے ہی دل کش و دل نشین فرحت بخش پروگرام سنتے اور دیکھتے رہیں، ’’پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا‘‘۔ اب تو دیکھا نہ جائے ہے کہ تفریح کے نام پر کیسے کیسے تماشے ہورہے ہیں اور ان تماشوں کے نظامت کار کس کس قماش کے ہیں۔ بھلا کس کس کا نام لیجیے؟ کن کن حرکات کی نشان دہی کیجیے؟ اب کہیے تو کیا کہیے؟ اور کس سے کہیے؟
وہ زمانہ ہمیں، خوب تو نہیں البتہ خواب کی طرح، یاد ہے، جب نومبر 1967ء سے پاکستان ٹیلی وژن کراچی مرکز کی نشریات کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت ہم اپنے آپ کو ’’متعلم جماعت ہفتم‘‘ کہا کرتے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اِس بات کو اُس دور کے راہ چلتے لوگ بھی سمجھ لیا کرتے تھے۔ وہ عجیب دور تھا۔ آج تو شاید خود متعلم جماعت ہفتم بھی یہ الفاظ سمجھ نہ پائیں۔ یہ عجیب دور ہے۔ راہ چلتے لوگ ہی نہیں، راہ بتاتے لوگ بھی اب جس راہ پر چل پڑے ہیں، آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔ ہمیں گزرے ہوئے ادوار کی سیاسی و تاریخی رُوداد سنانے والے بہت مل جائیں گے۔ پَر تہذیبی اور معاشرتی روایات کی رُوداد رقم کر نے والے کم کم ہی ملتے ہیں۔
شروع ہونے کو تو کراچی میں ٹیلی وژن اسٹیشن بھی شروع ہوگیا تھا اور ٹیلی وژن کی نشریات بھی، مگر لوگوں نے ابھی ٹیلی وژن سیٹ رکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ اس صنعتی و تجارتی شہر کے تقریباً ہر شہری کو کسی نہ کسی قسم کا، کوئی نہ کوئی روزگار میسر تھا، پھر بھی عوام کی قوتِ خرید اتنی نہ تھی کہ تین، ساڑھے تین ہزار سے چار ہزار روپے تک کی قیمت رکھنے والا اور سفید و سیاہ تصاویر دکھانے والا، ٹی وی سیٹ خرید سکیں۔ ریڈیو بھی، جو فقط ڈیڑھ دو سو روپے کا مل جاتا تھا، ہر گھر میں نہیں تھا۔ جو لوگ ٹیلی وژن سیٹ خرید سکتے تھے، وہ صاحبِ ثروت سمجھے جاتے تھے۔
اُس زمانے کے شریف اور عزت دار گھرانوں میں جوان جہان لڑکوں کا بھی سنیما جانا اور فلم دیکھنا ’’گناہِ کبیرہ‘‘ تصور کیا جاتا تھا، تو بھلا جماعت ہفتم کے طالب علم کی بساط ہی کیا ہوتی۔ جو لڑکے سنیما جا کر فلم دیکھا کرتے تھے وہ ’’آوارہ‘‘ کہے جاتے تھے اور مشکوک کردار کے حامل شمار ہوتے تھے۔ فلموں میں بھلا عشق و عاشقی کے سوا دکھایا اور سکھایا ہی کیا جاتا تھا؟ پھر فلمیں دیکھنے والے آوارہ گرد لڑکوں نے بھی تو دُند مچا مچا کر اپنا تاثر خراب کر رکھا تھا۔ منہ میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر سیٹیاں بجاتے اور راہ چلتی لڑکیوں پر آوازے کسا کرتے ۔ اسکول یا کالج جانے والی لڑکیوں کا دُور تک پیچھا کرتے۔ یہ سب اُن کی فلم بینی کا نتیجہ سمجھا جاتا تھا۔ شرفا اپنی بچیوں کے ساتھ اسکول یا کالج تک کے لیے کوئی نہ کوئی ’’پاسبانِ عقل‘‘ ساتھ کر دیا کرتے تھے، جو بھائی، ماموں، چچا یا خود والدِ محترم ہوتے۔ یہ اُس معاشرے کی تہذیبی اقدار تھیں۔
اس پس منظر میں جب ایک روز متعلم جماعت ہفتم کو ایک ہم جماعت نے اُجرت دے کر ’’ٹی وی بینی‘‘ کرنے کے شغل کی دعوت دی تو خوف سے گھگھی بندھ گئی۔ ڈاک خانے سے جو سڑک ایف ایریا اور جی ایریا کے درمیان حد فاصل بناتی ہوئی “E” ایریا کی طرف چلی جاتی ہے، اُسی سڑک کے کنارے ایف ایریا میں چودھری کی دُکان تھی۔ چودھری کو چونی تھما کر اُس سے پرچی لی جاتی اور دکان کے ساتھ ہی واقع اُس کے گھر کے ڈرائنگ روم کا رُخ کیا جاتا۔ دروازے پر ایک دربان کھڑا ملتا جو پرچی وصول کر کے ناظر کو اندر جانے کی اجازت دیتا۔ اب آپ جتنی دیر تک جی چاہے ٹی وی دیکھتے رہیں۔ سننے میں آتا تھا کہ بعضے بعضے دھتی ایسے بھی ہیں کہ نشریات سے قبل نشر ہونے والی شناختی دُھن (Signature Tune) سے دیکھنا شروع کرتے ہیں تو قومی ترانہ ختم ہونے پر نکالے جاتے ہیں۔ ابتدا میں ٹی وی کی نشریات کا آغاز شام چار بجے پروگرام ’’بصیرت‘‘ سے ہوتا تھا اور رات گیارہ ہی بجے قومی ترانے پر اختتام ہو جاتا تھا۔ پیر کے دن نشریات کا ناغہ ہوتا تھا۔ جب پہلی بار چودھری کے ’’تماش خانے‘‘ میں (سرکتے دروازے دائیں بائیں سرکا کر کھلنے والے) ٹی وی کی ’’تماش بینی‘‘ کی اور پہلی بار سفید و سیاہ تصویروں کو حرکت کرتے دیکھا تو یہ تماشا دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ یہ تصویریں چل پھر بھی سکتی تھیں اور بول بَک بھی سکتی تھیں۔ مگر اُس روز ہم یہ حیرت انگیز نظارہ صرف پندرہ منٹ تک کر سکے۔ گھر والوں کو پتا چل جاتا تو ’’آوارہ گردی‘‘ کے جرم میں نہ جانے کیسی بھیانک سزا ملتی۔ تاہم چودھری کا یہ کاروبار زیادہ عرصے تک نہیں چل سکا۔ ایک دن محلے کے شریف اور عزت دار لوگوں نے اُس کی دُکان پر دھاوا بول دیا۔ اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ تم نے محلے میں یہ کیا ’’قحبہ خانہ‘‘ کھول رکھا ہے؟ بچے خراب ہو رہے ہیں۔ بچارا چودھری یہ بھی نہ کہہ سکا کہ تمہارے بچے خود آتے ہیں، انہیں روک سکو تو روک لو۔ سو، بحث و تمحیص اور جھگڑا کرنے کے بجائے اُس نے بچوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اہلِ محلہ کے مفاد میں اپنا یہ کاروبار ہی بند کر دیا۔ صاحب! یہ اُس معاشرے کی تہذیبی اقدار تھیں۔
ٹیلی وژن رفتہ رفتہ کس طرح ہماری تہذیبی اور معاشرتی اقدار میں دخل انداز ہوا اور ہوتے ہوتے کیسے ہماری نجی مصروفیات میں خلل انداز ہوگیا، اس کی داستان بہت طویل ہے۔ ابتدا میں اِکّا دُکّا گھر تھے جہاں ٹیلی وژن آیا۔ مگر اب شاید ہی اِکّا دُکّا گھر ہوں جہاں ٹی وی موجود نہ ہو۔ آج بھی جن کٹّر مذہبی گھرانوں میں ٹی وی نہیں ہے، اُن میں بھی ایک چھوڑ کئی کئی اسمارٹ فون تو موجود ہی ہیں جو فرداً فرداً گھر کے تمام افراد کی خواب گاہوں اور اُن کی خلوتوں تک کے خلیل بنے ہوئے ہیں۔ اے صاحبو! یہ اِس معاشرے کی تہذیبی اقدار ہیں۔
طارق عزیز کا ’’نیلام گھر‘‘ پاکستان ٹیلی وژن کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔ طویل عرصے تک چلا۔ بعد میں اس پروگرام کا نام بدل کر ’’طارق عزیز شو‘‘ رکھ دیا گیا تھا۔ ابھی دو روز قبل ایک دوست نے بتایا کہ جب ’’نیلام گھر‘‘ شروع ہوتا تھا تو وہ ڈائری لے کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے تھے۔ ہر سوال اور اُس کا درست جواب نوٹ کرتے جاتے۔ اس طرح انہوں نے دو ڈائریاں بھرلی تھیں۔
طارق عزیز کا چیختا چلّاتا فقرہ ’’جواب درست ہے!‘‘ آج بھی زباں زدِ خاص و عام ہے۔ ’’رہبر واٹر کُولر آپ کا ہوا‘‘ آج بھی کسی محاورے کی طرح بولا جاتا ہے۔ اس پروگرام سے پوری قوم میں معلوماتِ عامہ کے حصول کا ذوق پیدا ہوا۔ موازنہ کیجیے تو موجودہ نسل کے مقابلے میں پچھلی نسل کی معلوماتِ عامّہ زیادہ تھیں۔ اب تو فرضی اور مصنوعی اطلاعات کی ایسی بھرمار ہے کہ صحیح اور غلط کی تمیز دشوار ہے۔ اُس زمانے کے تعلیمی اداروں میں بھی ’’نیلام گھر‘‘ کی نقل کی جاتی تھی۔ اسٹیج پر ہی نہیں، پنڈال میں بیٹھے ہوئے طلبہ و طالبات سے بھی معلوماتِ عامّہ کے سوالات کیے جاتے اور انہیں موقع ہی پر انعامات دے دیے جاتے۔
طارق عزیز کے انتقال پر اُن کے ایک فقرے کی تکرار مطبوعہ، برقی اور سماجی ذرائع ابلاغ سمیت تمام ذرائع ابلاغ پر کی گئی۔ اس فقرے کا پس منظر انہوں نے خودبیان کیا تھا۔ ہوا یوں کہ ایک بار طارق عزیز کی ملاقات ایک نابینا نوجوان سے ہوئی۔ اُس نے طارق عزیز کو بتایا: ’’میں آپ کا پروگرام بڑے شوق سے دیکھتا ہوں‘‘۔
طارق عزیز کو حیرت ہوئی: ’’آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟‘‘
جواب ملا: ’’کانوں سے!‘‘
طارق عزیز کہتے ہیں کہ پہلے میں بھی عام معمول کے مطابق ’’ناظرین‘‘ کو سلام کیا کرتا اور پروگرام کا آغاز کر دیتا تھا۔ مگر اُس نوجوان نے مجھ سے گلہ کیا: ’’آپ سب کو سلام کرتے ہیں، مجھے نہیں کرتے‘‘۔
تب طارق عزیز نے ’’ناظرین‘‘ کے ساتھ ساتھ اپنے پروگرام کے ’’سامعین‘‘ کو بھی مخاطب کرنا شروع کر دیا۔ فقرہ یوں تشکیل دیا:
’’دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے‘‘۔
ابھی کہنے کی باتیں بہت رہ گئی ہیں، مگر ورق تمام ہوگیا۔
طارق عزیز کو مجید امجد کی ایک غزل بہت محبوب تھی۔ اپنے کئی نشریوں میں اُنہوں نے اس غزل کے اشعار بار بار پڑھے۔ آج ہم بھی اسی غزل کے تین اشعار پراپنا کالم تمام کرتے ہیں:
مہکتے، میٹھے، مستانے زمانے
کب آئیں گے وہ من مانے زمانے
……
جو میرے کُنجِ دل میں گونجتے ہیں
نہیں دیکھے وہ دُنیا نے زمانے
……
تری سانسوں کی سوغاتیں، بہاریں
تری نظروں کے نذرانے، زمانے