رضوان سلطان
پوری دُنیا اس وقت کورونا وائرس نامی وبائی بیماری کی زد میں آ گئی ہے۔ اس بیماری سے ۴ لاکھ کے قریب ہلاک جبکہ ۲۸ لاکھ سے زائد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔ بھارت میں بھی ۲ لاکھ کے قریب افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور ان میں سے ۵ ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارت ہی کے زیر انتظام علاقہ جموں کشمیر میں ۲۵ سو کورونا کے مثبت کیسز درج ہوئے جن میں سے ۱۹۰۰ سے زائد کیسز کشمیر جبکہ ۶۰۰ سے زائد کیسز جموں صوبے سے درج کیے گئے۔ ان میں سے ۹۰۰ افراد صحت یاب بھی ہوئے جبکہ تادم تحریر ۳۰ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو صوبہ کشمیر کے رہنے والے لوگوں کو کورونا سے بھی بڑے مسائل اس وقت درپیش ہیں جن سے وہ بیک وقت نبردآزما ہیں اور جو کورونا ختم ہونے کے بعد بھی موجود رہیں گے۔
کشمیر میں رواں سال جنوری سے اب تک کورونا سے صرف ۲۵افراد ہلاک ہوئے لیکن اسی دوران جنوری سے مئی تک مسئلہ کشمیر کی وجہ سے ہر روز جاری جھڑپوں کے دوران ۸۰عسکریت پسند جاںبحق ہوئے ہیں۔ جبکہ اس دوران ۲۵ فورسز اہلکار اور ۱۰ عام شہری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر میں لگ بھگ پچھلے دس سال سے اوسطاً ہر سال ۲۰۰ سے زائد عسکریت پسند جاں بحق ہوتے ہیں اور اس سال بھی پہلے پانچ ماہ میں۸۰ عسکریت پسند جاںبحق ہو گئے ہیں، لیکن رواں سال کچھ ماہ سے فورسز کی جانب سے ان آپریشز کے دوران دیگر طریقے بھی شروع کیے گئے ہیں جن میں عسکریت پسندوں کی لاشوں کو لواحقین کے سپرد نہ کرنا ہے، جس سے اب لواحقین سے آخری رسوم ادا کرنے کا حق بھی چھینا گیا۔ وہیں دوسری طرف سے اب املاک کو بھی تباہ وبرباد کرنے کا منصوبہ شروع کیا جا چکا ہے۔ ۱۹ مئی کو سرینگر کے نواکدل علاقے میں فورسز کے ساتھ جھڑپ میں تحریک حریت چیئرمین محمد اشرف صحرائی کے فرزند جنید صحرائی ساتھی سمیت جاں بحق ہوئے۔ جھڑپوں میں اگرچہ جس گھر میں عسکریت پسند چھپے ہوتے ہیں اسے بارود سے زمین بوس کیا جا تا ہے، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق اس جھڑپ میں ۱۵ مکانات زمین بوس کیے گئے اور ان میں موجود زیورات اور پیسے بھی لوٹ لیے گئے۔
۵ اگست کے بعد کشمیر کا مقامی میڈیا بھی اب صرف موجودہ انتظامیہ کے بیانات چھاپنے تک محدود رہ گیا ہے۔ اسی خبر کو جب ’کشمیر والا‘ نامی مقامی ویب پورٹل نے ویڈیو سمیت شائع کیا تو اسی وقت سائبر پولیس سرینگر کی جانب سے پورٹل کے مدیر کو بلایا گیا اور شائع کی گئی خبر کے متعلق پوچھ گچھ کی گئی۔ بھارتی ویب پورٹل ’سکراوئل‘ کے مطابق پلوامہ ضلع میں ۲۰۱۸ میں جھڑپوں کے دوران ۱۰۵ مکانات زمین بوس کیے گئے۔ ٹی آر ٹی پورٹل پر شائع ایک رپورٹ کے مطابق مقامی انتظامیہ کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ۱۹۸۹ سے ۲۰۰۱ کے درمیان ۵۳۶۸ عمارتیں، دکانیں اور دیگر املاک جھڑپوں کے دوران زمین بوس یا تباہ کی گئیں۔ اگرچہ پچھلے ۱۹ سال کا کوئی ڈیٹا موجود نہیںہے لیکن ایک اندازے کے مطابق ہر سال کشمیر میں ۱۰۰ سے زائد عمارتیں اور مکانات جھڑپوں میں زمین بوس کیے جاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ ان مکانات کو زمین بوس کیے جانے کے بعد مقامی انتظامیہ کی جانب سے پچاس پیسے کا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا بلکہ پھر مقامی سطح پر ہی لوگوں کی مدد سے متاثرین کے لیے پیسے جمع کیے جاتے ہیں۔
گزشتہ سال ۵ اگست کو جموں کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت دی جانے والی خصوصی پوزیشن کو منسوخ کیا گیا تھا اور اس پوزیشن کو ختم کرنے کا جواز پیش کرتے بھاجپا نے کہا تھا کشمیر میں اس سے عسکریت کا خاتمہ اور ریاست کو ترقی کے نئے راستے پر لے جائے گی۔ خصوصی پوزیشن کے خاتمے سے تو پتا چلا کہ کس طرح کی ترقی ہوئی۔ لیکن جو اس کے خاتمے کے متعلق کشمیریوں کو تحفظات تھے بالکل سو فی صدی سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ حریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے بھی کہا تھا کہ کشمیر میں یہ سب مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے اور ہوا بھی یہی۔ موجودہ بھاجپا سرکار نے اب کشمیر میں اسرائیلی طرز پر غیر ریاستی ہندئوں کو بسانے کا کام شروع کر دیا ہے اور اس کی بنیاد خصوصی پوزیشن کی منسوخی سے کی گئی۔ ۱۸ مئی کو جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس سے قبل ہی مئی کے پہلے ہفتے میں جموں کشمیر تنظیم نو قانون (۲۰۱۹) میں موجود شقوں کے مطابق ان لوگوں کے لیے قواعد و ضوابط واضح کیے گئے جو یہاں کی شہریت اور نوکریاں بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی اب ریاست سے باہر کا کوئی بھی شخص جموں کشمیر میں کسی بھی جگہ زمین باآسانی خرید سکتا ہے اور وہاں رہ بھی سکتا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اس ڈومیسائل قانون کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے اور یہ صرف حسب دستور مذمت تک ہی محدود رہی۔ پوری دنیا میں او آئی سی ایک ایسی نام نہاد مسلم تنظیم جو لگتا ہے صرف خیر مقدم، مذمت اور مخالفت یا تعریف کرنے کے لیے بنائی گئی ہو۔ خیر اب مسئلے پر ہی بات کرتے ہیں، بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر بھارت کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کشمیر کی کل آبادی ۷۵ لاکھ کے قریب ہے اور اسی طرح سے جموں صوبے کی آبادی ۵۵ لاکھ تک ہو گی۔ جموں ہندو اکثریتی علاقہ جو شروع میں خصوصی پوزیشن کی منسوخی پر پرجوش دکھائی دے رہا تھا لیکن اب اس کے نتائج سامنے آتے ہی یہاں کے ہندو سیاسی لیڈر بھی بھاجپا کے اس فیصلے سے بیزار ہیں اور وہاں کئی احتجاجی مظاہرے بھی سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے کیے گئے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر میں پر تشدد حالات ہونے کی وجہ سے غیر ریاستی لوگوں کا رخ جموں کی جانب ہی رہے گا اور سب سے زیادہ نقصان اس فیصلے سے نوکریوں اور جائداد کے معاملے میں جموں والوں ہی کا ہوگا۔ اس قانون کو بنانے کے ساتھ ہی مقامی انتظامیہ نے دس ہزار نوکریوں کا اعلان کیا۔ جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ نئے قانون کو قبول کریں کیوںکہ انہیں بھی کسی بھی نوکری کے لیے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہے۔
گزشتہ سال ۵ اگست سے یہاں ان منصوبوں کے علاوہ اسمبلی نشستوں کی نئی حد بندی متعین کرنے کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ جس کے لیے حد بندی کمیشن بھی بنا لیا گیا ہے۔ اس کے تحت جموں میں اسمبلی نشستوں کا اضافہ کرنا ہے تاکہ وہاں کی اسمبلی نشستوں کو کشمیر کی نشستوں کے برابر کر کے ایک ہندو کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے اور اسمبلی میں پھر ہندو نظریات کو جموں کشمیر میں عملی جامہ پہنانے میں آسانی ملے گی۔
اسمبلی کی بات کی جائے تو اس وقت ۳۷ نشستیں جموں اور ۴۶ نشستیں کشمیر صوبے میں ہیں جبکہ ۲۴ سیٹیں آزاد کشمیر کے لیے مختص رکھی گئی ہیں۔ تنظیم نو قانون کے تحت اب مزید ۷ نشستوں کا اضافہ کیا جائے گا جس میں سے رپورٹس کے مطابق نئی حد بندی میں ۳ نشستیں مغربی پاکستان کے ہندو مہاجرین کے علاقوں میں بنائی جائیں گی۔ اسی طرح کچھ سیٹیں گجر بکروال طبقے کے لیے مخصوص رکھی جائیں گی اور اسمبلی میں مجبوری کے وقت ان کا ساتھ حاصل کیا جائے گا۔ اسی طرح سے کشمیر میں اگر کوئی اسمبلی سیٹ نئی بنائی گئی تو وہ بھی ایسے علاقے میں بنائی جائے گی جہاں غیر ریاستی ہندئوں کو بسایا جائے گا۔ جموں میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ اسمبلی میں قبضہ کشمیر کا ہی رہا ہے اور وزیر اعلیٰ انہی کا ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں وہ دلی کے لیے ایک ایجنٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ شیخ عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
اب جبکہ ان تمام منصوبوں پر کام جاری ہے اور دلی کو بھی ان منصوبوں پر کام کرنے کے لیے کورونا وائرس کا پردہ ملا ہے۔ دوسری جانب سے وادی میں ان منصوبوں کی کوئی مذمت بھی نہیں کی جا رہی۔ کیوںکہ ایک طرف حریت پسند قیادت جیلوں میں ہے اور دیگر نام نہاد مین اسٹریم لیڈران جو ۵ اگست سے جیلوں میں بھرے گئے تھے کو اسی شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ مرکزکی جانب سے لییگئے فیصلوں کے خلاف کوئی بھی احتجاج نہیں کریں گے۔ دوسری جانب سے مسلم دنیا میں پاکستان اور ترکی کو چھوڑ کر کشمیر کے لیے کسی نے ابھی تک آواز نہیں اٹھائی اور وجہ یہی ہے کہ بھارت ان ممالک کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ مختصر یہ کہ آج تک پاکستان کے علاوہ کشمیر کے لیے ان ممالک نے کیا بھی کچھ نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کشمیریوں نے آج تک تحریک حریت کی جدو جہد خود ہی چلائی ہے اور آگے بھی خود ہی جاری رکھنی ہو گی۔