عدلیہ پر کنٹرول کی کوشش ناکام

369

عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشیل کونسل میں صدر مملکت کی جانب سے بھیجا جانے والا ریفرنس کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے مبینہ طور پر بدنیتی پر قرار دیا ہے ۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کسی جج کے خلاف ریفرنس صدر مملکت کی جانب سے دائر کیا گیا ہو ، یہ اپنی نوعیت کا دوسرا واقعہ تھا تاہم دونوں کے نتائج یکساں نکلے اور انہیں بدنیتی پر محمول قرار دیا گیا ۔ پہلا ریفرنس فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے خلاف دائر کیا تھا ۔ دونوں صدارتی ریفرنسوںمیں یہ بات مشترک ہے کہ حاکم وقت نے عدالت پر قابو پانے میں ناکامی پر صدارتی ریفرنس دائر کیے تاکہ ناپسندیدہ جج کو راستے سے ہٹایا جاسکے ۔ جسٹس عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی اخلاقی حیثیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت ملک کی 25 بار ایسوسی ایشنیں جسٹس عیسیٰ کی حمایت میں عدالت میں فریق تھیں ۔ جسٹس عیسیٰ کے کیس کے فیصلے کی صرف اتنی اہمیت نہیں ہے کہ حکومت عدلیہ پر قبضہ کرنے میں ناکام ہوگئی ہے بلکہ اس کی اہمیت اس سے بھی بڑھ کر اس لیے ہے کہ اس سے عدالتی وقار بحال ہوا۔ اس بارے میں جماعت اسلامی پاکستان کے سربراہ سینیٹر سراج الحق کا یہ تبصرہ برمحل ہے کہ بے بنیاد ریفرنس سے قوم اور عدالتوں کا وقت اور سرمایہ ضائع ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عدلیہ اور میڈیا سمیت تمام اداروں پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے ۔ ایک طرف وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ادارے مستحکم بنانا ان کے ایجنڈے کا اہم جز ہے تو دوسری جانب اداروں پر ان کے حملے جاری ہیں ۔ جسٹس عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کرنا وزیر اعظم عمران خان کا فیصلہ تھا یا ان کے سلیکٹروں کا ،کم از کم یہ فیصلہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا نہیں تھا مگر اس پورے قضیے میں وہی قربانی کا بکرا بنیں گے اور انہیں ہی مستعفی ہونا چاہیے ۔یہ درست ہے کہ چاہے جج ہوں یا جرنیل کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے مگر یہ بات بھی اتنی ہی اہم ہے کہ قانون کو کسی ادارے کو مفتوح کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے ۔ بصورت دیگر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے جو جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں نکلا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ وزیر اعظم عمران خان اداروں کو مفتوح کرنے کے بجائے ملک کے مسائل کو حل کرنے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھیں ۔ جہاں تک جسٹس فائز کے مقدمے کے فیصلے کا تعلق ہے تو یہ ابھی مبہم ہے اور 10 میں 7 ججوں نے فیصلہ دیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کی بیگم کے ٹیکس معاملات، منی لانڈرنگ، لندن جائداد اور ذرائع آمدن سے متعلق معاملات کی تحقیقات ایف بی آر کرے گی اور متعلقہ کمشنر نوٹس وصول کرنے کے 75 دن میں فیصلہ سنائے گا۔ چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل مزید کارروائی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرے گی۔ اس طرح حکومت کو مزید ایک موقع دے دیا گیا ہے کہ اب بھی کچھ کر سکتی ہو تو کر لے۔ ایف بی آر حکومت وقت کا پابند ہے۔ جسٹس عیسیٰ کی بیگم نے جو دستاویزات پیش کی ہیں، ریفرنس دائر کرنے سے پہلے ان کی تحقیق کیوں نہیں کی گئی۔ لڑائی ختم ہونے پر جو مکا یاد آتا ہے اسے اپنے ہی منہ پر مار لینا چاہیے۔ فیصلے میں ریفرنس بنانے اور دائر کرنے والوں کے خلاف کسی اقدام کا ذکر نہیں۔ ایک دلچسپ کردار فروغ نسیم کا ہے جو بار بار وزارت چھوڑ کر کالا کوٹ پہن کے آ جاتے ہیں۔ اس کھلی شکست کو بھی وہ اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔ فرمایا کہ ’’میں اپنی جیت پر خوش نہیں ہوں‘‘۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ عظیم طارق کے قاتلوں کا مقدمہ لڑنے کے لیے ایک بار پھر کالا کوٹ پہن لیں۔ آخر وہ بھی تو ایم کیو ایم ہی کا انتخاب ہیں۔ معاون خصوصی شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ فیصلے میں ’’بدنیتی‘‘ کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کے ذکر کی ضرورت بھی کیا ہے، فیصلے سے سب کچھ واضح ہے۔