کراچی ( رپورٹ : محمد انور ) بلدیہ عظمٰی اور کراچی کے ضلعی اداروں کے تقریبا 6 ہزار نئے پینشنرز کے مجموعی طور پر 3 ارب 35 کروڑ کے واجبات کی ادائیگی کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف کسی بھی قسم کا مالی تعاون نہ کیے جانے کے وجہ سے بوڑھے بینشنرز میں مایوسی پھیلنے لگی جبکہ تقریبا ایک
درجن سے زائد پینشنرز اپنی پہلی پیش بھی وصول کیے بغیر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ خیال رہے کہ میئر وسیم اختر نے 7 اپریل کو ان غریب ریٹائرڈ ملازمین کی پینشنز و لیو انکیشمنٹ کی ادائیگی کے لیے وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلٰی مراد علی شاہ کو خصوصی مراسلے ارسال کیے تھے۔ جن میں مذکورہ ریٹائرڈ ملازمین کی 2015 -16 سے واجب الادا مجموعی 3 ارب 35 کروڑ 70 لاکھ روپے کی ادائیگی کے کیے خصوصی ” پینشن ایمرجنسی بیل آوٹ پیکج ” دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ اس درخواست پر تقریبا دو ماہ گزر جانے کے باوجود وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کوئی بھی جواب نہیں آسکا۔ جبکہ پینشنرز اپنا حق لینے کے لیے شدید گرمی کے باوجود کوروناوائرس سے احتیاط کرنے کو نظر انداز کرکے کے ایم سی کے دفاتر کے چکر لگارہے ہیں۔ چار سال قبل ریٹائرڈ ہونے والے ان ملازمین میں کے ایم سی کے 2 ہزار 394 ، ڈی ایم سی سینٹرل کے 638 ، ڈی ایم سی شرقی کے 510 ، ڈی ایم سی ویسٹ کے 502 ، ڈی ایم سی جنوبی کے 887 ، ڈی ایم سی کورنگی کے 366 ، ڈی ایم سی ملیر کے 134 ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کے 45 ، ایس سی یو جی سروس کے 62 ، کے ایم ڈی سی کے دس ، کے ڈی اے کے 42 اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج سیوریج بورڈ کا ایک ملازم شامل ہے جو سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے دور میں ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 2015 سے پینشنرز کے منتظر ان پیشنرز کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے لیکن انہیں پینشن نہیں مل رہی۔ کے ایم سی ریٹائرڈ ایمپلائز ایکشن کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر سعید اختر نے پینشنرز کو پینشنز کی بقایا ادائیگی کا سلسلہ شروع چار سال بعد بھی شروع نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ مراد علی شاہ سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپیل کی ہے کہ پینشنرز کو بقایا جات ادا کرنے کے لیے میئر کراچی کی درخواست فوری منظور کی جائے بصورت دیگر تمام بوڑھے ریتائرڈ ملازمین سخت احتجاج پر مجبور ہوجائیں گے۔