بلاجواز لوڈشیڈنگ کیوں؟؟

417

کراچی پر مظالم میں کوئی ادارہ دوسرے سے پیچھے رہنے پر تیار نہیں جس کو جتنی طاقت میسر ہے وہ اتنا ہی تباہی لارہا ہے۔ کراچی میں بجلی کی فراہمی کا ٹھیکا ایک ہی کمپنی کے الیکٹرک کے پاس ہے جس کے نتیجے میں اس کی اجارہ داری ہے۔ نجکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کو خدمات کی فراہمی کا کام دیتے وقت ایک سے زیادہ اداروں کو یہ کام دیا جاتا تو کم از کم مسابقت کا رجحان رہتا لیکن ملی بھگت کرکے کے ای ایس سی کو بھی ایک ادارے کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ آج کل یہ کے الیکٹرک ہے اس ادارے نے تمام قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ اس کی نجکاری کے معاہدے کو حکومت نے چھپایا، عوام کے سامنے نہیں لایا گیا اور جو کچھ سامنے آیا اس کے مطابق اسے خود بجلی پیدا کرنی تھی لیکن یہ ادارہ بجلی بھی پیدا نہیں کررہا۔ واپڈا سے جو بجلی ملتی ہے اور دیگر ذرائع سے اسی پر اس کا انحصار ہے۔ بجلی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کے الیکٹرک نے کبھی پیداوار میں اضافہ نہیں کیا۔ فرنس آئل سے بجلی پیدا نہیں کی جاتی۔ گیس کمپنی اور پیٹرولیم کمپنی کے مقروض ہیں، ٹی وی لائسنس فیس وصول کرکے پی ٹی وی کو ادا نہیں کی جارہی۔ عوام سے اپنی مرضی کی شرح پر بجلی کی قیمت وصول کی جارہی ہے۔ خود ہی سلیب بنالیتے ہیں صرف تین سو یونٹ تک بل میں فی یونٹ چارج کیے جاتے ہیں اور میٹر ایسے ہیں کہ پہلے کے مقابلے میں تیس پینتیس فی صد تیز ہیں۔ جب کہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے میٹر تیز چلانے کی شکایات بھی سامنے ہیں۔ پھر تین سو یونٹ سے زیادہ پر بجلی کی شرح بہت زیادہ کردی گئی ہے۔ 300 یونٹ سے زیادہ کا بل بھی جان بوجھ کر بنایا جاتا ہے تاکہ بڑے سلیب میں جا سکیں۔ اسمبلیوں، سینیٹ اور حکومتوں میں بیٹھے لوگوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ عوام کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ خصوصاً کراچی کے نام نہاد ٹھیکیدار بھی خاموش بیٹھے ہیں۔ ویسے تو ان ٹھیکیداروں کے بارے میں پتا ہی نہیں چل رہا، تو اب کس کو کراچی کا ٹھیکا دیا جارہا ہے۔ لیکن جو موجود ہیں وہ ایک ہی رونا رو رہے ہیں کہ فنڈز نہیں۔ کے الیکٹرک کا جہاں تک تعلق ہے تو آج کل لاک ڈائون اور شام سات بجے کے بعد پورا شہر بند ہونے کے نتیجے میں بجلی کی کھپت نہایت کم ہوگئی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر بجلی کی لوڈشیڈنگ بے انتہا بڑھ گئی ہے۔ شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ کا عذاب عوام کو تنگ کرنے کا پرانا ہتھکنڈا ہے۔ جب سے کے الیکٹرک کے ہاتھ میں انتظام آیا ہے کوئی اس کے خلاف احتجاج بھی نہیں کرسکتا۔ بجلی کی شکایت لے کر جانے والا شخص پہلے قید میں جاتا ہے، شناختی کارڈ جمع کراتا ہے، لوہے کے جنگلے کے دوسری طرف جا کر شکایت درج کراتا ہے اور بحث مباحثے کی اجازت نہیں۔ زیادہ بل آگیا ہے تو بھی بھرو اور غلط آگیا ہے تو بھی جمع کرانا ہے۔ اب تو عدالتوں نے بھی یہی کہہ دیا کہ پہلے بل جمع کرایا جائے اس کے بعد فیصلہ ہوگا۔ کے الیکٹرک کے پاس لوڈشیڈنگ کا تو جواز ہی نہیں ہے کیونکہ بجلی فاضل ہے لیکن پھر بھی کراچی میں 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ کے الیکٹرک کا ترجمان کہتا ہے کہ جن علاقوں میں بل ادا کرنے کی روایت نہیں یا بجلی چوری کی جاتی ہے ہم وہاں لوڈشیڈنگ کرتے ہیں۔ لیکن اس کا جواز کیا ہے۔ جس گھر جس میٹر سے بجلی چوری ہوتی ہے اس کی بجلی کاٹ دی جائے، چند لوگوں کی غلطی کی سزا پورے پورے علاقے کو کیوں دی جاتی ہے۔ اب علاقے بھی نشان زد ہوچکے ہیں جہاں سے بجلی چوری کی جاتی ہے اور وہ علاقے بھی معین ہیں جہاں بجلی چوری نہیں ہوتی اور بلز باقاعدگی سے ادا ہوتے ہیں اور لوڈشیڈنگ آج کل بلاتخصیص ہر علاقے میں ہورہی ہے۔ حکومت سندھ یا مرکزی حکومت کے الیکٹرک سے کچھ نہیں پوچھتیں۔ نیپرا بھی نوٹس لینے اور معمولی جرمانے سے آگے نہیں بڑھتی۔ تو پھر کے الیکٹرک کو کھلی چھوٹ ملی رہے گی۔ یہ بات کے الیکٹرک تک محدود نہیں ہے۔ پٹرولیم مافیا، گندم اور شکر مافیا سمیت کسی کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوتی۔ وزیراعظم ہر ہفتے بیان دے دیتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اس سے شاید ان کی یہ مراد ہوتی ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو کہیں جانے نہیں دوں گا پارٹی میں ہی رکھوں گا۔