آدھا تیتر آدھا بٹیر

370

بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں لوگ سوچے سمجھے بغیر قبول کرلیتے ہیں۔ مثلاً پاکستانی عوام کو یقین ہے کہ امریکا پاکستانی حکمرانوں کی برین واشنگ کرتا ہے۔ یا ان کے سر میں ایسی چپ لگا دیتا ہے جو ان کی حرکات و سکنات سے امریکا کو آگاہ کرتی رہتی ہے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذاکرات یا گفت وشنید سے قبل ایسا انجکشن لگا دیا جاتا ہے جو امریکی ہدایات کو ان کے ذہین پر نقش کر دیتا ہے مگر اب گھبرانے کی کوئی بات نہیں جڑی بوٹیوں پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے نے انکشاف کیا ہے کہ بعض جڑی بوٹیوں میں ایسی خاصیت پائی جاتی ہے جو آدمی کو شعور سمیت سلا کر اس کے لاشعور کو بیدار کردیتی ہیں۔ آدمی شعوری طور پر جن باتوں کا تذکرہ یا اعتراف کرنے سے گریزاں رہتا ہے ہربل ادویات کے ذریعے اس کا اعتراف کرایا جاسکتا ہے۔ کافی عرصے سے انگریزی ادویات کے خلاف احتجاج کی لہر موجزن ہے۔ لوگ کیمیکل ادویات سے بے زار ہوکر ہربل ادویات کی جانب مائل ہورہے ہیں۔ کیونکہ انگریزی ادویات فوری شفا تو دیتی ہیں مگر کچھ بیماریوں کی راہ بھی ہموار کردیتی ہیں۔ بعض طبی ماہرین کا کہا کہنا ہے وہ وقت دور نہیں جب انٹی بائیوٹک ادویات اپنا مقام کھو دیں گی کیونکہ لوگ ہربل ادویات کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ نانی اماں کی پٹاری فرسٹ ایڈ باکس پر غالب آ جائے گی۔
برسوں پرانی بات ہے پنجاب کے ایک وزیر اعلیٰ علاج کی غرض سے امریکا تشریف لے گئے میڈیا نے بہت شور مچایا کہ اپنڈیکس کا آپریشن، آپرپشن تھیٹر کا وارڈ بوائے بھی کرسکتا ہے اور یہ ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ ہمارے نامی گرامی سرجن اپنڈیکس کے بجائے گردہ نکال دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکمران طبقہ معمولی معمولی آپریشن اور بیماریوں کے لیے پاکستانی ڈاکٹروں پر یقین کیوں نہیں کرتا حاصل پور کے ایک آئی سرجن کالے موتیا کے ماہر ہیں ان کی مہارت کے چرچے پورے پاکستان میں ہیں ایک صاحب اپنے والد کے آپریشن کرانے ان کے پاس آئے تو انہوں نے پچاس ہزار روپے طلب کیے اور وہ صاحب نام بڑے اور درشن چھوٹے کہ امریکا چلے گئے مگر جب حاصل پور کے ڈاکٹر کو وہاں دیکھا تو بڑے حیران ہوئے اور پوچھا ڈاکٹر صاحب آپ کیسے آئے ہیں تو ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر کہا آپ کے والد کا آپریشن کرنے کے لیے بلوایا گیا ہوں آپ نے پچاس ہزار روپے دینا گوارا نہ کیا مگر امریکا میں آپ پچاس لاکھ روپے خرچ کرنے پر تیار ہوگئے۔
ہاں یاد آیا ہم بات پنجاب کے ایک سابق وزیر اعلیٰ کی کر رہے تھے۔ آپریشن تو کامیاب ہوگیا مگر پریشانی یہی ہوئی موصوف کو خوابیدہ کرنے کے لیے جو عمل کیا گیا تھا اس نے ان کے لاشعور کو بیدار کردیا، کہتے ہیں آپریشن سے قبل وزیر اعلیٰ نے کوئی ہربل دوا استعمال کی تھی جس نے ان کے لاشعور کو بیدار کردیا اور یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ مقتدر طبقہ ہر مرض کی دوا امریکا سے طلب کرتا ہے یہ تو ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ مرتے وقت بھی تقریر کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ہمارے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے بے ہوشی کے دوران جو تقریر کی وہ امریکا کے لیے حیران کن تھی موصوف نے بے ہوشی کے دوران فرمایا کہ پاکستان کے لیے اسلامی نظام بہت ضروری ہے۔ کہ اس کے بغیر معیشت پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔ موصوف نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ملکی وسائل پر تین فی صد افراد قابض ہیں اور یہی تین فی صد طبقہ پاکستان پر حکمرانی کر رہا ہے۔ یہ کبھی حکمران ہوتا ہے تو کبھی مشیر ہوتا ہے۔ دنیا کی ہر آسائش اس کا مقسوم ہے اور عوام صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ اقلیتی طبقہ اکثریت پر حکمرانی کرتا ہے ۔ اور اس کے بنیادی حقوق پر بھی غالب ہے۔ یہ وہ اعتراف ہے جو کوئی بھی سیاستدان نہیں کرسکتا عوام سیاستدانوں سے اتنے بدظن ہیں کہ ان کی کسی بات پر بھی اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں سیاستدانوں کے قول و فعل کے تضاد نے قوم کو مایوس کردیا ہے خاکم بدہن اب ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے جو پاکستان کو اپنے آباء کی بد نصیبی قرار دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے خوابیدہ حالت میں یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ عوام کا اعتبار حاصل کرنے کے لیے انہیں ملکی وسائل میں حصے دار بنانا ہوگا۔ کتنا اچھا ہوتا اگر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے دور اقتدار میں اس حقیقت کا اعتراف کے لیتے اور اس پر عمل درآمد کراتے تو آج پاکستان عالمی بھکاری نہ ہوتا۔