بھارت کا سیاچن پر قبضہ، سی آئی اے تبت پلان کا خاتمہ؟

1615

قاضی جاوید
چین بھارت کشیدگی ختم کرنے والے 16جون کے مذاکرات میں بھارت کا ایک کرنل سمیت چینی میڈیا رپورٹ کے مطابق 20سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی خبریں ہیں جس کے بعد روس، بھارت اور چین کے درمیان ہونے والے 22جون کا اجلاس ناممکن ہو چکا ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بھارت کا سیاچن پر قبضے کا خاتمہ ہونے کو ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نے سیاچن میں موجود بھارتی فوج کو کمک پہنچانے والے تمام راستے بند کر دیے ہیں، اُدھر دوسری جانب سی آئی اے کا تبت پلان 1949ء ختم ہو رہا ہے۔ جس کے تحت تبت کے نام نہاد لیڈر دلائی لامہ نے بھارت میں ایک جلاوطن حکومت قائم ہے، 1959 میں دلائی لامہ کا تبت سے بھارت جانے کا پورا پلان امریکی سی آئی اے نے بنایا اور سی آئی اے کی جانب سے اس جلاوطن حکومت کو سالانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر کی امداد صرف چین کے خلاف کام کرنے کے لیے امداد کے طور پر دی جا رہی ہے۔
چین اور بھارت کے درمیان لداخ خطے کی وادی گلوان کے علاقے میں تنازع پانچ مئی کو اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے فوجی نقل و حرکت کے لیے اس خطے میں دربوک سے دولت بیگ اولڈی تک 255 کلو میٹر لمبی سڑک کی تعمیر کا دھوم دھام سے افتتاح کیا۔ چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق چین کے فوجیوں نے اپنے علاقے میں بھارتی فوجیوں کو ایک سڑک کی تعمیر کرنے سے روکا۔ اس سڑک کی تعمیر سے وادی گلوان تک رسائی آسان ہو گئی ہے اور یہ درہ قراقرم کے نزدیک ختم ہوتی ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کو روکنے اور ایک وجہ یہ ہے کہ بھارت ان علاقوں سے سیاچن اور کارگل میں آسانی اپنی افواج کو کمک پہنچانے کا کام انجام دے سکتا ہے چین وادی گلوان کو اپنا خطہ تصور کرتا ہے۔ دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان پینگونگ سو جھیل کے شمال میں ایل اے سی کے نزدیک جھڑپ ہوئی تھی جس میں کئی فوجی لوہے کے راڈ اور لاٹھیوں کی زد میں آ کر زخمی ہوئے تھے۔ اس وقت سے بڑی تعداد میں چینی فوجی اس خطے میں موجود ہیں۔ پینگونگ سو جھیل اور وادی گلوان میں چینی فوج کی موجودگی کی وجہ سے بھارت کے لیے سیاچن اور کارگل میں پر بہت بڑی فوج کا رکھنا ناممکن ہو جائے گا۔
ہانگ کانگ سے لے کر تائیوان تک اور بحیرہ جنوبی چین سے بھارتی سرحد تک چینی قیادت برسوں سے امریکا اور بھارت کو من مانی کرتے نظر آتے ہیں لیکن کورونا وبا کے بعد امریکا کا ایشیا پیسیفک میں اور بھارت گلوان ویلی اور پاکستانی ایل او سی پر عسکری نقل حرکت چین اور پاکستان دونوں کو جنگ کی راہ پر چلنے پر مجبور کر رہا تھا۔ بھارت کی چین کے خلاف سرحدی ایل اے سی 3500کلو میٹر پر عسکری تعمیرات نے چین کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنی پالیسیوں پر جارحانہ انداز سے عمل پیرا ہو۔ امریکا، بھارت، برطانیہ، جاپان اور آسٹریلیا میں بھی چین کے طرزعمل کے بارے میں تشویش پائی جارہی ہے لیکن اب تک کسی حکومت نے کھل کر بھارت کی حمایت نہیں کی۔ ایسا نہیں ہے کہ چین کی حکومت یہ محسوس کررہی ہو کہ دنیا اس وقت کورونا وائرس کی جانب متوجہ ہے اس لیے یہ کارروائی کے لیے بہترین وقت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نے بحیرہ جنوبی چین سے قریب وبا کے عین عروج پر اپنے جزیر ے گوام پر اپنا 7واں بحری بیڑا اور B1بمبار طیاروں کا ہجوم لگا دیا امریکا کو اس بات کا خیال بھی نہیں آیا کہ امریکا کی سڑکوں پر ہنگاموں نے مغرب کو مزید تقسیم اور بدحواس کردیا ہے۔ امریکا اور بھارت یہ سوچ رہے تھے کہ اس وقت دنیا کورونا وائرس کی جانب متوجہ ہے اس لیے یہ کارروائی کے لیے بہترین وقت ہے۔ امریکا بھارت اتحاد پاکستان کی ایل او سی اور چین کی ایل اے سی کی کھل کر خوب خوب خلاف ورزی کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ نیا عالمی بحران، وبائی مرض سے کہیں زیادہ سنگین طویل المدتی نتائج کے ساتھ آسانی سے پھوٹ سکتا ہے۔
40 سال کی تیز اقتصادی ترقی کے بعد اب کچھ اقدامات کے باعث چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہے۔ اس کی بحریہ میں امریکا سے زیادہ جنگی جہاز اور آبدوزیں ہیں۔ اس کے انٹرنیٹ نے بھارت کے 350کلومیٹر ایل اے سی سرحد پر قبضہ جما لیا ہے۔ وبائی مرض کی وجہ سے چین کو عالمی آفت کا وسیع پیمانے پر مورد الزام ٹھیرایا گیا ہے۔ ایک ایسی حکومت جو یقین کرتی تھی کہ اسے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے ایک سال میں 8 فی صد اضافے کی ضرورت ہے اب امریکا کے ساتھ تجارتی جنگ کے ساتھ ساتھ گہرے معاشی سکڑاؤ سے نمٹ رہی ہے۔ ہانگ کانگ میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جمہوریت نواز احتجاج کمیونسٹ پارٹی کی اتھارٹی کے لیے سخت چیلنج کے طور پر سامنے آیا ہے اور چین کو اس بات کا علم ہے امریکن سی آئی اے ان ہنگاموں میں بہت حد تک ملوث رہی ہے۔ چین کی خارجہ اور داخلہ پالیسیاں تیزی سے جرأت مندانہ ہوتی جارہی ہیں۔ ہانگ کانگ پر قومی سلامتی کا نئے قانون کا نفاذ، جس کے تحت آزاد شہر پر چین طرز کے سنسر شپ لگانے کا خطرہ ہے۔ چینی صدر شی جنگ پنگ حکومت واقعتاً اس پر قائل ہوسکتی ہے کہ حریف بیرونی طاقتیں چین کے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ لیکن یہ سمجھنا کہ دنیا چین کے نقطہ نظر سے کیسے نظر آتی ہے، بتدریج منظوری میں نہیں بدل سکتا۔ اگرچہ صدر شی جنگ پنگ اور ان کے ساتھیوں کو پختہ یقین ہے کہ چین کے اقدامات فطرت کے لحاظ سے دفاعی ہیں، وہ جس نظام کا دفاع کررہے ہیں وہ ایک جماعتی ریاست ہے جو غیر متناسب بین الاقوامی مطالبات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اندرون اور بیرون ملک تنقید کو دبانے کی کوشش کرتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد چین پر عالمی برادری بالخصوص امریکا کی جانب سے زبردست دباؤ ہے اور وہ اس سے نکلنے کے لیے سرحدی معاملات پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ چین بھارت کے ساتھ اپنی 3500 کلو میٹر طویل سرحد کے اہم مقامات پر بھارت کی جانب سے سڑکیں اور دیگر عسکری اہمیت کی تعمیرات پر تشویش میں مبتلا تھا۔ کورونا کی وبا پھیلنے کے بعد بھارت میں سرکاری سطح پر چین کے خلاف فضا تیار کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چین کے بجائے بھارت میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کرنے جیسے اقدامات پر چین خاصا نالاں ہے۔ امریکا اس معاملے میں متعدد بار چین پر نکتہ چینی جبکہ بھارت کی براہ راست حمایت کا اعلان کر چکا ہے۔ چین بھارت کو پہلے ہی متنبہ کر چکا ہے کہ وہ امریکا سے اس کے ٹکراؤ میں ملوث نہ ہو۔ مبصرین کے مطابق دونوں ملکوں کے موجودہ سرحدی تنازعے کا یہ بھی سبب ہو سکتا ہے۔
چین بھارت کے ساتھ اپنی 3500 کلو میٹر طویل سرحد کے اہم مقامات پر بھارتی سڑکیں اور دیگر عسکری اہمیت کی تعمیرات اور امریکا کی بھرپور سرپرستی اور سی پیک میں رکاوٹ ڈالنے کی کارروائی ایل اے سی اور ایل او سی پر تسلسل کے ساتھ حملے بھارت لیے خراب صورتحال پیدا کر رہا ہے۔ اُدھر دوسری جانب یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ چینی افواج لداخ کے 62کلو میٹر حصے پر قابض ہو گئیں اور بھارتی فوج اور امریکی فضائی نگرانی کے آلات مکمل بے خبر رہے۔
ایل اے سی کے کئی مقامات پر چین اور بھارت کے درمیان اختلافات اور ٹکراؤ ہوتے رہتے ہیں لیکن وادی گلوان کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے کیونکہ جس خطے میں چینی فوجی داخل ہوئے ہیں وہاں وہ پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ کشیدگی ختم کرنے کے لیے اور اپنے اپنے ملکوں میں عوام کو بتانے کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں فوجیں اپنی اپنی موجودہ پوزیشن سے کچھ پیچھے ہٹنے کا طریقہ نکال لیں لیکن زمین پر حقیقی پوزیشن میں فی الحال کسی تبدیلی کی توقع کم ہے۔ لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے اب بھارت فوری طور پر اگست 2019ء کو کشمیر کی حیثیت تبدیل کر والے قانون کو از خود ختم کر دے۔ دوسری صورت میں بھارت نہ صرف چین اور پاکستان میں متنا زع علاقوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ اس کو نیپال میں بہت بڑے علاقے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔