ٹرمپ سے ناراض مودی پیوٹن کی گود میں، پاکستان خاموش؟

808

چین اور امریکا کے درمیان 3دن قبل ہوائی میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو اور امریکی سیکرٹری برائے خارجہ نے یہ کہہ کر یکسر مسترد کردیا کہ ان مذاکرات کے دوران چین نے تمام سفارتی آداب کو ختم کردیا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان جاری تنازعات کے بارے میں کسی کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں۔ ہوائی میں ہونے والے مذاکرات میں چینی سفارت کار نے امریکی کے سیکرٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو کے ان بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی جو امریکا نے لداخ گلوان ویلی میں بھارت اور چین کے درمیان جھڑپ کی مذمت کی۔ بھارت چین مذاکرات کے بعد بھارت کو امریکا سے کوئی امید باقی نہ رہی اور بھارت اس وقت دنیا بھر میں اپنے آپ کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ روس، انڈیا اور چائنا فورم (RIC) کا طے شدہ پروگرام کے مطابق مارچ میں اجلاس ہونا تھا لیکن کوویڈ 19 کے باعث 23جون کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ اجلاس وڈیو لنک کی مدد سے کیا جانا تھا لیکن بھارت چین کشیدگی کی وجہ سے 23 جون کے اجلاس کو ختم کر دیا گیا۔
تمام بڑے سفارتی دروازے کے بند ہونے کے بعد بھارتی کرتا دھرتائوں نے ایک نئی سوچ کو جنم دیا۔ ہر سال روس میں 24 جون کو ’’وکٹری ڈے‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ وکٹری ڈے 1945ء میں یو ایس ایس آر اور جرمنی کے درمیان ہونے والی جنگ میں جرمنوں کو شکست اور روس کی فتح کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ’’ریڈ اسکوائر‘‘ ماسکو میں ایک بہت بڑی پریڈ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ہر سال کی طرح رواں سال 24جون کو اس پریڈی کا پہلے انعقاد کا پروگرام تیار کیا گیا لیکن بعد میں کوویڈ 19 کے باعث پروگرام منسوخ ہوگیا تھا۔ چینی اعلیٰ سفارت کار اور مائیک پومپیو کے درمیان ناکام مذاکرات کے بعد بھارت نے انتہائی عجلت میں رشین فیڈریشن کے صدر ولادی میرپیوٹن سے بات چیت شروع کردی۔ بھارت نے روس سے یہ درخواست کی کہ وہ 24 جون کو ہونے والی اپنی سالانہ پریڈ کا انعقاد کیا جائے جس میں بھارت بھی شریک ہو گا۔ جس پر روس تیار ہوگیا اور اب یہ پریڈ 24 جون کو ماسکو کے ریڈ اسکوائر پر ایس او پیز کے تحت کی جارہی ہے۔ پروگرام کے تحت اس پریڈ بھارت سے کرنل کی سطح کی بھارتی قیادت کو شرکت کرنا تھی اور روس کسی بھاری وفد کی ایک ایسے وقت میں مہمان نوازی نہیں کر سکتا جب اس کے اپنے ملک میں کوویڈ19 کی وجہ سے ہزاروں افراد کو جان کا خطرہ لاحق ہے لیکن بھارت نے صدر پیوٹن کو بتایا کہ وہ روس سے 21 میگ بمبار طیارے 29 اور 12 لڑاکے 130 طیارے کی خریداری کا فوری سودا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کی اس پیشکش کو صدر پیوٹن نے فوراً قبول کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ 24 جون کو منسوخ کی گئی پریڈ کا دوبارہ پروگرام بنایا جائے اور اس سلسلے میں متعلقہ حکام کو حکم دیا کہ وہ پریڈ کی تیاری ایس او پیز کے تحت کریں۔ یہ دنیا کی واحد پریڈ ہو گی جس میں ایس او پیز کے قوانین پر عمل کیا جائے گا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ اس پریڈ میں بھارتی سکھ رجمنٹ کے کرنل کی سطح کے کسی دستے کو شامل ہونا تھا لیکن بھارت کی جانب سے بڑی پیشکش کے بعد اب اس پریڈ میں بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ ازخود شرکت کریں گے۔ بھارتی وزیر دفاع اس موقع پر پریڈ دیکھیں گے اور تین دن روس میں قیام کریں گے اور دنیا کو تاثر دینے کی کوشش کریں گے کہ بھارت اور روس دفاعی اتحادی ہیں اور بھارت اور روس کے درمیان برسوں سے منجمد سفارتی و دفاعی تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے اور روس اور چین کے درمیان لڑائی کرانے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔ لیکن بھارت کو اس بات کو علم نہیں ہے بہت سارا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے چین اور روس کے درمیان یکساں نظریات ہونے کے باوجود بہت سارے معاملات میں فاصلے زیادہ ہیں۔ بھارت روس کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کر گا کہ ون بیلٹ ون روڈ کا گزر روس کے برفانی علاقوں سے کیا جارہا ہے اس کا روس کے بجائے سارا فائدہ چین کو ہوگا۔ لیکن بھارت کو یہ معلوم نہیں کہ اس سلسلے میں روس اور چین دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وہ سائبریا کے برفانی علاقے سے ’’ٹرین کو گزاریں گے جو ون بیلٹ ون روڈ کے سلسلے کی ہوگی‘‘۔
1991ء میں یونین آف سویت سوشلسٹ ری پبلک (USSR) کے خاتمے کے بعد صدر پیوٹن عملی طور پر روس کے اوپری سطح کے حکمرانوں میں شامل ہیں۔ 1991ء میں جب یو ایس ایس آر کے ٹکڑے ٹکڑے ہورہے تھے اس وقت پیوٹن ’’کے جی بی‘‘ کے سربراہ تھے اور بعد میں ’’ایس ایس بی‘‘ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں صدر پیوٹن اس وقت کے صدر بورس یلسن کے بھی بہت قریب تھے۔ 1991ء سے 2000ء تک ولادمیر پیوٹن ایک طرح سے حکمرانی کی تربیت حاصل کرتے رہے اور 2000ء میں پیوٹن روس کے صدر بن گئے۔ 2000ء سے لے کر 2020ء تک بلاشرکت غیرے روس پر ولادمیر پیوٹن حکمرانی کررہے ہیں اور ان کی یہ حکمرانی دستور کے مطابق 2036ء تک اسی طرح برقرار رہے گی۔ اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے 60ء اور 70 کی دہائیوں میں دہائیوں میں یو ایس ایس آر کا قریب ترین دوست بھارت 1991ء کے بعد رشین فیڈریشن سے ایسا غائب ہوا جیسے گدھے
کے سر سے سنگ۔ صدر پیوٹن کے سامنے ہے اور ایسی حالت میں جب پوری دنیا بھارت سے منہ موڑ رہی ہے وہ امریکا کی حمایت کرنے والے بھارت کے کیسے قریب آئے۔ رشین فیڈریشن اور بھارت کے تعلقات گزشتہ 20 سال میںکم ہوچکے ہیں اور اس کی جگہ امریکا اور یورپی ممالک سے بھارت نے اپنے تعلقات کو بڑھایا بھی ہے اور اسے مستحکم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ لیکن 5 مئی کی چین بھارت کشیدگی نے بھارت پر یہ بات واضح کردی ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک کے پاس بھارت کے لیے سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کچھ نہیں کرسکتے۔ ان 20 سال کے دوران پاکستان اور چین بھی امریکا کے بجائے روس کے قریب آتے گئے۔ گزشتہ 10 سال میں پاکستان، چین اور روس کے درمیان ہر طرح کے تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان روس کے ساتھ ہوائی، بحری اور بری ہر طرح کی مشترکہ مشقوں میں شریک رہا ہے۔ اسی طرح چین اور روس کے درمیان بھی اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے آپس کے تعلقات بہت زیادہ بہتر ہیں۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے روس نے بھارت کے ساتھ کوئی خاص تعلقات استوار نہیں کرنے جارہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ 2015ء میں ہونے والی ’’وکٹری پریڈ‘‘ میں بھارت کی جانب سے بھارتی صدر پرنب مکھر جی شریک ہوئے تھے۔ اس موقع روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے پرنب مکھر جی کو دو ٹوک الفاظ بتا دیا تھا کہ وہ ایشیا پیسیفک کا تبدیل نام انڈین پیسیفک اور ’’بھارت، امریکا، جاپان، تائیوان اور سنگارپور دفاعی اتحاد‘‘ کو ہرگز قبول نہیں کر ے گا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بھارت اس طرح کی کارروائیوں سے باز رہے جس سے روس کو شدید تحفظات ہوں۔