طیارے حادثے کے ذمے دار؟

328

کسی بھی ملک کے لیے شہری ہوابازی کا محکمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ یہ محکمہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جہاز بہترین حالت میں ہوں اور جہاز کو چلانے والا کاک پٹ کریو بھی بہترین ذہنی صحت کی حالت میں ہو ۔ اس کے ساتھ ہی ہوائی اڈوں کی سیکوریٹی سمیت دیگر سہولتوں کی فراہمی کی ذمہ داری بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی ہی کی ذمہ داری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ملک میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے محکمے کو نہ صرف انتہائی اہمیت حاصل ہے بلکہ اس پر انتہائی توجہ بھی دی جاتی ہے ۔اس معاملے میں بھی پاکستان کاانداز ہی جدا ہے ۔پاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کی کارکردگی کا اندازہ 2016 میں حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہونے والے اے ٹی آر طیارے کی عبوری رپورٹ اور کراچی میں ائربس A 320 کی تباہی کی عبوری رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ کراچی میں تباہ ہونے والے طیارے میں 97 مسافر اور ایک راہ گیر بچی اپنی جان سے گئے تو اے ٹی آر کے حادثے میں ممتاز نعت خواں جنید جمشید سمیت 48 افراد اس جہان فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان دونوں رپورٹوں میں ایک بات پر واضح ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی اگر اپنے اختیارات کا استعمال کرتی تو ان دونوں حادثات سے بچاؤ ممکن تھا ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی یوں تو ایک سول ادارہ ہے مگر دیگر اداروں کی طرح یہاں بھی فوجی افسران کو تعینات کردیا گیا ہے ۔ جس طرح سے ایک ٹینک کا ڈرائیور ہیوی ٹرالر چلانے کے لیے نااہل ہے بالکل اسی طرح ملٹری ایوی ایشن کا ماہر کہیں سے بھی سول ایوی ایشن کے لیے کام کا آدمی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں کہیں پر بھی ملٹری ایوی ایشن کا کوئی پائلٹ یا کسی اور شعبہ کا ماہر سول ایوی ایشن کے کسی بھی شعبہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تعینات نہیں کیا جاتا۔ سب سے زیادہ خراب صورتحال پر سامنے آئی ہے کہ اب ہر محکمے اور ہر شعبے سے ماہرین کا خاتمہ ہوچلا ہے اور سارا کام ہی ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے ۔ پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی ایک زمانے میں اتنی معروف تھی کہ متحدہ عرب امارات سمیت دیگر کئی ممالک کو اپنی ماہرانہ خدمات پیش کیا کرتی تھی ۔ جب سے فوجی افسران کا ہر شعبے میں تقرر ہونا شروع ہوا ہے ، اس دن سے سول ایوی ایشن اتھارٹی ہو یا کوئی اور محکمہ ، تنزلی کا نیا باب شروع ہوگیا ہے ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ائر وردی نیس کا محکمہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہی محکمہ کسی بھی طیارے کا فٹنس سرٹیفکٹ جاری کرتا ہے کہ مذکورہ طیارہ پرواز کے لیے محفوظ ہے کہ نہیں ۔ اے ٹی آر طیارے کی تباہی کی رپورٹ میں یہ واضح ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنا یہ فرض پورا نہیں کیا ۔ جب سول ایوی ایشن اتھارٹی کو معلوم تھا کہ مذکورہ طیارے کے انجن میں خرابی ہے تو پہلے اسے درست کرنے کی ہدایت کیوں نہیں دی گئی ۔ اسی طرح کراچی میں طیارہ اس لیے تباہ ہوا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ائرٹریفک کنٹرولر نے اس بات کو یقینی نہیں بنایاکہ طیارہ لینڈنگ سے قبل مناسب بلندی پر اور مناسب رفتار کے ساتھ موجود ہو ۔ رپورٹ کے مطابق طیارہ درکار بلندی سے کہیں زیادہ بلند تھا اور اس کی رفتار بھی تیز تھی جس کے باعث طیارہ رن وے کے آغاز پر لینڈنگ کے بجائے وسط تک پہنچ گیا تھا ۔ اب تک کی معلومات کے مطابق جب پائلٹ نے یہ دیکھا کہ وہ محفوظ لینڈنگ نہیں کرسکتا تو اس نے دوبارہ پرواز کا فیصلہ کیا ۔دوبارہ پرواز کے فیصلے کے ساتھ ہی فرسٹ پائلٹ نے لینڈنگ گیئر بند کردیے اور یوں فضا میں دوبارہ اٹھنے سے قبل ہی طیارے نے تین بار سطح زمین سے رگڑ کھائی ۔ اگر سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ائرٹریفک کنٹرولر اپنے فرائض درست طریقے سے سرانجام دیتا اور پائلٹ کودرست بلندی اور درست رفتار تک لینڈنگ نہ کرنے دیتا تو اس حادثے سے بھی بچا جاسکتاتھا ۔ ملٹری افسران کی تعیناتی نے قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کا بھی بھٹہ بٹھادیا ہے ۔ پاک فضائیہ کے سیکنڈ ان کمانڈ وائس ائر چیف کو پی آئی اے کا سربراہ بنادیا گیا ۔ اس کے ساتھ ہی پاک فضائیہ کے درجنوں حاضر سروس افسران کو بھی پی آئی اے میں اس طرح سے بھیج دیا گیاکہ جیسے پاک فضائیہ میں اتنے تجربہ کار اور ماہر افسران کی اب کوئی ضرور ت ہی نہیں رہ گئی ہے ۔ اس کا دوسرا نقصان پی آئی اے کو یہ ہو اکہ فلائٹ آپریشن ، انجینئرنگ، مارکیٹنگ ، ہیومین ریسورس ، فنانس جیسے اہم شعبہ جات یکسر ناتجربے کار افراد کے ہاتھوں میں آگئے اور پھر اس نے وہ تباہی پھیلائی جو سب کے سامنے ہے ۔ جس طرح سے سلیکٹروں نے نااہل کھلاڑی سلیکٹ کرکے ملک میں تباہی پھیلادی ہے بالکل اسی طرح ان سلیکٹروں نے ہر ادارے میں تباہی پھیلادی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ جو اپنے شعبے کا اہل فرد ہے ، اسے ہی وہ شعبہ چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے بصورت دیگر وہی ہوگا جو ہورہا ہے یعنی سارے ہی ادارے کریش کرجائیں گے اور ہر ادارے میں صرف اور صرف ڈپوٹیشن پر آئی ہوئی انتظامیہ ہی بچے گی ۔ کراچی کے حادثے پر اب تک تو وزیر ہوا بازی چودھری غلام سرور کو استعفا دے دینا چاہیے تھا کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے سے پہلے یہی کہا تھا۔