ڈاکٹر سید محبوب
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی اُمنگوں، آرزوئوں کا گہوارہ ہے۔ اس کی بنیادوں میں لاکھوں شہدا کا لہو، ہزاروں پاکدامن اور عصمت مآب خواتین کی قربانیاں، سالہا سال کی جدوجہد شامل ہے۔ یہ مملکت خداداد جس کا وجود 27 رمضان المبارک کی بابرکت اور عظیم رات کو ہوا اس کی کامیابی، کامرانی، استحکام کا دارومدار اس کے نظریے اور بنیاد سے وابستگی پر منحصر ہے۔ اس کے سیاسی و معاشی استحکام کا دارومدار بھی اسلام اور صرف اسلام پر ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے پالیسی سازوں اور معاشی منتظمین اسے اس کی بنیادوں سے دور کرتے چلے گئے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی بنیادوں، مرکز و محور سے مزید دور ہوتا چلا جارہا ہے۔ پاکستانی معیشت کے ثمرات جاگیردارانہ، نیم سرمایہ دارانہ اور ایک خاص مراعات یافتہ طبقے کے گرد گھومتے ہیں۔ انگریز کے وفاداروں نے مجاہدین آزادی کو کچلنے کے صلے میں ان سے بے پناہ مراعات، سہولتیں اور اثر رسوخ حاصل کرلیا اور آزادی کے بعد مخلص رہنمائوں سے محرومی نے انہیں آگے آنے اور ملکی سیاست اور معیشت پر قابض ہونے کے مواقع فراہم کردیے اور سیاسی شجرہ اُٹھا کر دیکھ لیں تو گزشتہ 73 سال سے ملکی پالیسی سازی، پارلیمنٹ، بیوروکریسی میں یہی طبقہ غالب ہے۔ یہی طبقہ سبسڈی، برآمدات کی سہولتیں اور مختلف ناموں سے ملکی معیشت کے بڑا حصے پر قابض ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی گدھ شوگر، آٹا، گندم اور پاور مافیا کی شکل میں قومی معیشت کو نوچ رہے ہیں اور کمال عیاری سے یہ ملٹری آمریت یا نام نہاد سول جمہوریت ہر دو ادوار میں حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسی وفاداریاں سیاسی منڈی میں اپنے ضمیر کی کثیر بولی لگا کر اور مراعات کے حصول کے عوض فروخت کردیتے ہیں۔ یہ لوگ جب معیشت کے دسترخوان سے خوب سیر ہو کر اُٹھتے ہیں تو جو بچ جاتا ہے وہ صحت، تعلیم اور کبھی بے نظیر انکم سپورٹ فنڈ یا احساس پروگرام کے نام پر بچا کچھا غریب افراد کے نام کردیتے ہیں جو غریب عوام صبح سے شام تک قطاروں میں دھوپ کی تمازت اور ذلت برداشت کرتے ہوئے کبھی وصول کرتے ہیں اور کبھی انہیں دوبارہ آنے کا کہہ دیا جاتا ہے۔
ہر حکومت کی طرح تبدیلی سرکار نے بھی لوگوں کو سنہرے خواب دکھائے۔ 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، 10 ارب درخت لگانے کا مژدہ سنایا گیا۔ وزرا نے مبالغہ آرائی کے پہاڑ سجائے۔ ایک صاحب مبالغے کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے کہنے لگے کہ ملک میں صرف چند ہفتوں میں ایسی خوشحالی آنے والی ہے جس سے ٹھیلے والا بھی آکر خود کہے گا کہ مجھ سے ٹیکس لو۔ دو سال کا عرصہ گزر گیا اب 3 سال کا عرصہ باقی ہے۔ ان دو سال میں 20 لاکھ گھروں کی تعمیر اور 40 لاکھ ملازمتیں فراہم کرنی تھیں لیکن اس کے برعکس لوگوں کو بے گھر اور بے روزگار کردیا گیا۔ اب 3سال میں 16 لاکھ 66 ہزار گھر، ماہانہ ایک لاکھ 38 ہزار 8 سو 88 گھر یومیہ 4 ہزار 6 سو 30 گھر تعمیر کرنے ہیں۔ یعنی حکومت نے جو بھی معاشی اہداف دیے وہ حقائق سے دور اور اپنی ٹیم کی استعداد کو سامنے رکھ کر نہیں بنائے گئے۔ حکومت کی اپنی معاشی ٹیم تو ناکام ہوگئی پھر اسے آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لیے اسی عطار کے لونڈے (یعنی آئی ایم ایف کے ہدایت نامے) سے دوا لینی پڑی جس کی وجہ سے معیشت بیمار، کمزور اور لاغر ہوگئی۔
حکومت نے اپنے معاشی اہداف میں تیز رفتار معاشی شرح نمو، بھوک، غربت، جہالت، بے روزگاری میں نمایاں کمی، انسانی وسائل کی ترقی، ان کی پیداواری قوت میں نمایاں اضافہ اور اپنے انتخابی منشور میں تعلیم پر قومی آمدنی کا 7.4 فی صد مختص کرنے کا وعدہ کیا۔ موجودہ حکومت کو 5.5 فی صد کی شرح نمو اور 3.9 فی صد کی افراط زر ورثے میں ملی تھی، جب کہ گزشتہ 2 سال میں معاشی شرح نمو میں کمی آئی، افراط زر میں اضافہ ہو، شرح سود 13.25 فی صد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی جسے کورونا کے بعد 5.5 فی صد کم کرکے 8 فی صد کردیا گیا۔ معاشی ترقی کی شرح 61 سال میں پہلی مرتبہ منفی سطح پر آگئی۔
حکومت قوم کو یہ بتاتی ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے بے تحاشا قرض لیے اور یہ قرض موجودہ حکومت کو ورثے میں ملے ہیں۔ یہ مانا کہ قرضوں کا ایک بڑا حصہ حکومت کو ورثے میں ملا جسے حکومت نے بادل نخواستہ قبول کیا لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ یہ شوگر، آٹا، گندم اور پاور مافیا اور حکومت میں موجود سابقہ ادوار کے یہ ستون تو حکومت نے خود اپنے گلے میں لٹکائے ہیں، یہ سابقہ حکومت کا ورثہ یہ موجودہ حکومت نے خود گلے لگایا ہے۔ جاری حسابات میں خسارے کا آغاز دسمبر 2019ء سے ہوگیا تھا جب موجودہ معاشی ٹیم سرگرم نہیں ہوئی تھی۔ اپریل 2019ء تک جاری حسابات کا خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر 11.4 ارب ڈالر ہوگیا۔ 43 فی صد کی کمی ہے۔ مارچ 2020ء تک جاری حسابات کے خسارے میں 2 ارب 80 کروڑ ڈاکٹر کی کمی آئی جو 75 فی صد کی نمایاں کمی ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کے سروے کے مطابق قلیل عرصے کے لاک ڈائون سے 14 لاکھ جب کہ طویل مدت کے لاک ڈائون سے ایک کروڑ 23 لاکھ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔
ملک شدید معاشی مشکلات کا شکار ہے جب کہ وزرا کی تقاریر سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں معاشی خوشحالی کا دور دورہ ہے، روزگار کے مواقعے بڑھ رہے ہیں جب کہ حقائق نہایت تلخ اور اس کے برعکس ہیں۔ ملکی قومی آمدنی میں 80 فی صد حصے والے سروس اور صنعتی سیکٹر کا نمو منفی شرح پر آگیا ہے۔ صرف اپریل کے مہینے میں برآمدات میں 54 فی صد کمی ہوئی جب کہ درآمدات میں 32 فی صد کمی ہوئی۔ تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے درآمدات کے حجم میں کمی ہوئی تاہم مشینری اور دیگر سرمایہ کاری کے سامان کی درآمدات میں کمی سے صنعتوں اور روزگار پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تشویشناک صورت حال یہ ہے کہ صنعتوں کا نمو منفی 2.64 فی صد رہا جس میں بڑے پیمانے کی صنعتوں میں منفی 7078 کا نمو، ٹیکسٹائل 2.57، الیکٹرونکس 13.54 فی صد، ادویہ سازی 5.38 فی صد، انجینئرنگ مصنوعات 7.05 فی صد شرح نمو اس بات کا اظہار ہے کہ صنعتوں میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پھیلی۔ خدمات کے شعبے میں بھی شرح منفی 0.59 فی صد رہی جب کہ ٹرانسپورٹ اور کمیونیکیشن کے شعبے میں منفی 7.13 فی صد شرح نمو بھی بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ زراعت میں اگرچہ 2.67 فی صد مثبت شرح نمو رہی تاہم کپاس کی شرح نمو منفی 6.9 فی صد رہی جس کے مزید منفی اثرات ٹیکسٹائل صنعت ہماری برآمدات کا 60 فی صد ہے پر پڑیں گے۔ اس سال ٹڈی دل کے حملے نے بھی فصلوں کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ صنعتوں کے 15 میں 10 سیکٹرز کی شرح نمو منفی رہی۔ پاکستان کی ٹوٹل برآمدات جولائی تا مارچ 22 ارب 97 کروڑ سے کم ہو کر 17 ارب 65 کروڑ رہ گئیں جب کہ ٹیکسٹائل کی برآمدات 3 ارب 39 کروڑ 60 لاکھ ڈالر سے کم ہو کر 10 ارب 46 کروڑ ڈالر رہ گئی۔پاکستانی معیشت کے متعلق اس وقت فیصلے آزادانہ طور پر قومی مفاد کو سامنے رکھ کر نہیں کیے جارہے۔ معاشی فیصلے آئی ایم ایف کی ہدایات اور طے کردہ اہداف کے حصول کے لیے ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کر پاکستان سے متعدد فیصلے کروائے گئے اور پاکستان مقبوضہ کشمیر میں تاریخ کے بدترین ظالمانہ اور وحشیانہ اقدامات کے باوجود آرٹیکل 370 کے خاتمے پر بھی کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکا۔ پاکستان کو معاشی استحکام کی راہ پر چلنے کے لیے آئی ایم ایف اور ملک میں موجود چینی، آٹا، گندم اور پاور مافیا سے نجات حاصل کرنی ہوگی۔ معیشت کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اور سودی معیشت سے نجات حاصل کرنا ہوگا۔