غلام سرور خان کا خطرناک بیان

539

وفاقی وزیر شہری ہوابازی غلام سرور خان نے پارلیمنٹ میں دھماکا خیز انکشاف کیا ہے کہ ملک میں چالیس فیصد پائلٹ جعلی لائسنس پر جہاز اڑا رہے ہیں۔ غلام سرور خان وفاقی وزیر کے منصب پر فائز ہیں اور انہوں نے یہ بیان اسمبلی کے فلور پر دیا ہے جہاں پر ہر لفظ ناپ تول کر بولا جاتا ہے ، یقینا انہوں نے اپنا یہ بیان غیر مصدقہ اطلاع پر نہیں دیا ہوگا اور ان کے پاس اپنے اس بیان کے لیے دستاویزی ثبوت ہوں گے ۔ وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان کو یقینا اپنے اس بیان کے نتائج و عواقب کا بھی اندازہ ہوگا اور انہوں نے انتہائی سو چ سمجھ کر یہ بیان دیا ہوگا کہ ان کے اس بیان سے پاکستان کی ہوابازی کی صنعت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ پی آئی اے کے جہازوں کی حالت انتہائی ابتر ہے ، کیبن کریو کا رویہ مسافروں کے ساتھ تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ ان سب کے باوجود مسافر پی آئی اے کے جہازوں پر سفر کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ پی آئی اے کے پائلٹوں کی مہارت کی دنیا معترف ہے ۔ اب وفاقی وزیر ہوابازی کی جانب سے قومی اسمبلی کے فلور پر دیے جانے والے بیان کے بعد دنیا بھر میں پی آئی اے کے طیاروں کو اڑتے تابوت قرار دیا جارہا ہے تو کہیں ان پر کارٹون بنائے جا رہے ہیں ۔ بھارت کو موقع مل گیا ہے کہ وہ پاکستانی شہری ہوابازی کی صنعت کو تباہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں اپنی لابی کو متحرک کردے ۔ وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان کو جمعرات کو دنیا بھر میں عالمی میڈیا نے نمایاں کیا ۔ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی جو پائلٹوں کو لائسنس جاری کرنے کا مجاز ادارہ ہے ، اس کے پاس اس طرح کی نہ تو کوئی تفصیلات ہیں اور نہ ہی اس نے اس طرح کی کوئی فہرست مرتب کی ہے ۔ جب کہیں پر ایسی کوئی مصدقہ تفصیل ہی نہیں ہے تو پھر کس طرح سے وفاقی وزیر کے عہدے پر فائز غلام سرور خان اس طرح کا غیر ذمے دارانہ بیان دے سکتے ہیں ۔ وفاقی وزیر نے کراچی میں پی آئی اے کے تباہ ہونے والے طیارے کی عبوری رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ طیارے کی لینڈنگ سے قبل پائلٹ کورونا کے بارے میں گفتگو کررہے تھے ۔ وفاقی وزیر ہوابازی کے ان بیانات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی پائلٹوں سے متعلق باقاعدہ برین واشنگ کی گئی ہے جس کے تناظر میں انہوں نے ایسا بیان دیا جو پاکستان کی شہری ہوابازی کے لیے ایٹمی دھماکا ثابت ہوا ۔ شکاگو کنونشن کی رو سے کاک پٹ میں ہونے والی گفتگو پرائیویسی کے زمرے میں آتی ہے اور اسے کسی بھی صورت میں افشا نہیں کیا جاسکتا ۔ اب اگر مرحوم پائلٹوں کے لواحقین کسی عدالت میں وفاقی وزیر ہوابازی اور حکومت پاکستان پر مقدمہ دائر کردیں تو ان کی کیا حیثیت ہوگی ۔ کیا وفاقی وزیر ہوابازی کو کوئی یہ بتانے والا نہیں ہے کہ بربنائے منصب انہیں کس طرح کے الفاظ استعمال کرنے چاہییں ۔ وہ گاؤں کی چوپال میں گفتگو نہیں کررہے تھے بلکہ قومی اسمبلی کے فلور پر باقاعدہ ایک بیان دے رہے تھے جسے پوری دنیا میں سند کا درجہ دیا گیا ۔ غلام سرور خان کے بیان اور دیگر وزراء کے بیانات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان نیازی نے کس طرح کے چنیدہ افراد اپنی کابینہ میں رکھے ہیں ۔عمران خان کی کابینہ میں ایک بات مشترک ہے کہ کوئی بھی وزیر اپنی ماتحت وزارت کے بارے میں گفتگو یا کام کرنا پسند ہی نہیں کرتا ۔ سب کو بیانات دینے بلکہ احمقانہ بیانات دینے کا حد سے زیادہ شوق ہے ۔ کسی وزیر کا اپنے شعبے میں بنیادی معلومات رکھنا تو دور کی بات ہے ، انہیں اس امر سے ہی کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ انہیں وزیر کس لیے بنایا گیا ہے اور انہیں اپنے متعلقہ شعبے کی ترقی و ترویج کے لیے کیا کرنا چاہیے ۔ اصولی طور پر تو کراچی میں پی آئی اے کے حادثے کے فوری بعد مہذب دنیا کی طرح غلام سرور خان کو مستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔ ذمہ داری لے کر مستعفی ہونا تو درکنار انہوں نے تو ڈھٹائی کی آخری حدیں ہی پار کرڈالیں ۔ اگر پی آئی اے میں جعلی لائسنس پر پائلٹ موجود ہیں تو یہ جعلی لائسنس جاری کس نے کیے ہیں ۔ ملک میں پائلٹوں کو لائسنس جاری کرنے کا ذمہ دارادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ہے ۔ پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی دونوں ہی ادارے وفاقی وزیر غلام سرور خان کی وزارت میں ہی آتے ہیں تو پھر یہ جعلی لائسنس کے ذمہ دار تو وہ خود ہوئے اور انہیں فوری طور پر وزارت سے برطرف کردینا چاہیے ۔ اصولی طور پر تو اس خوفناک انکشاف کے بعد فوری طور پر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سربراہ اورلائسنسنگ برانچ کے سربراہ کو بھی برطرف کردینا چاہیے تاکہ شفاف تحقیقات ہوسکیں ۔ پی آئی اے کے سربراہ ، ہیومین ریسورس اور متعلقہ شعبے کے سربراہ کو بھی فوری طور پر برطرف کردینا چاہیے کہ انہوں نے تصدیق کیے بغیر کس طرح سے جعلی لائسنس رکھنے والے پائلٹوں کو ادارے میں نوکری فراہم کی ۔ اب تک کریش ہونے والے تمام طیاروں کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر ڈال کر ان سب پر قتل کا مقدمہ چلنا چاہیے ۔ وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان کے آفٹر شاک مدتوں تک آتے رہیں گے کہ آئندہ کوئی غیر ملکی فضائی کمپنی پاکستانی پائلٹوں کو ملازمت پر نہیں رکھے گی ، مسافر پاکستانی جہازوں پر سفر نہیں کریں گے اور خدانخواستہ کسی جہاز کے کریش ہونے کی صورت میں انشورنس کمپنیاں انشورنس کلیم کی ادائیگی نہیں کریں گی کہ پی آئی اے نے جعلی لائسنس والے پائلٹ بھرتی کررکھے ہیں ۔ وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان پر سمجھ میں نہیں آتا کہ اپنے سر کو پیٹیں یا کسی اور کے سر کو۔