عاشق رسول منور حسن الوداع

307

اللہ ربّ العالمین نے قرآن مجید‘ فرقان حمید میں جن عباد الرحمن کی نشانیاں بیان کی ہیں‘ قبلہ منور حسن‘ ان نشانیوں کی تلاش میں صدق دل سے اپنی شعوری زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کرکے اپنے خالق و مالک کے حضور پیش ہوگئے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ان کے ہر احسن عمل کے بدلے انہیں بے شمار رحمتیں عطاء کرے اور حقوق العباد کا معاملہ چونکہ بندے کا بندے کے ساتھ ہے‘ کامل یقین ہے ان کے تمام عزیز‘ دوست‘ احباب اور وہ تمام لوگ جو ان کے حلقہ احباب میں رہے وہ سب انہیں دنیا سے عزت‘ احترام کے ساتھ رخصت کرنا خود اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں‘ سید منور حسن کا اعزاز ہے انہیں سید مودودی جیسے کامل ولی کو دیکھنے‘ ملنے‘ اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا‘ سید مودودی کا جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے صرف یہی پیغام تھا کہ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم کرنا‘ اس جدوجہد میں وہ لوگوں کا عملی ساتھ چاہتے تھے اور جو ساتھ نہ دے اس کے لیے یہی الفاظ تھے کہ وہ اللہ کے ہاں اپنا جواب سوچ لیں۔
جب انسان یہ کلمہ ادا کرے کہ الحمدللہ ربّ العالمین تو وہ اس کے بعد دنیا کے جہاں کے مال و متاع سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور پھر وہ سیاسی، معاشی، سماجی نظام میں کسی کو اپنا ربّ اور الہ نہیں مانتا۔ زندگی بھر ہر کام کے لیے اس کی رائے ’’مالک یوم الدین‘‘ کے حصار میں رہتی ہے بس پھر وہ صراط مستقیم کی پک ڈنڈی پر چلتا رہتا ہے اور آخر ایک روز وہ یہ اعزاز پالیتا ہے کہ اللہ اسے ان لوگوں میں شامل کرلیتا ہے جن پر اس کا انعام ہوتا ہے… جناب قبلہ سید منور حسن نے جس طرح زندگی گزاری اور جس جرأت کے ساتھ جیے‘ یہ ان پر اللہ کے کرم کی زندہ مثال ہے‘ وہ سوائے اللہ کے‘ کسی کو جواب دہ نہیں تھے‘ تنظیم میں رہتے ہوئے اطاعت امر کی عمدہ مثال تھے‘ لوگ ڈرتے ہیں سوال کرنے سے مگر‘ جہاں سوال کرنا ضروری سمجھا وہ انہوں نے ڈٹ کر سوال کیا اور پوری جرأت سے کہا کہ بیلنس شیٹ دکھائو‘ وزیر اعظم نے قومی اسمبلی میں اسامہ بن لادن کو شہید قراردیا مگر چند لمحوں کے بعد ترجمان میدان میں اتر آئے کہ زبان پھسل گئی ہے‘ جناب سید منور حسن نے بھی اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا تھا‘ اور وہ اپنی بات پر قائم رہے‘ انہیں علم ہوتا تھا کہ وہ کیا بات کہہ رہے ہیں۔ لفظوں کا چنائو بہت سوچ سمجھ کر کرتے تھے، تربیت گاہ ہو یا عوامی جلسہ‘ انتخابی مہم ہو یا سیاسی تحریک‘ اہل پاکستان کو سید منور حسن جیسا مقرر اب نہیں ملے گا‘ وہ اپنی بات جڑ سے شروع کرتے اور کونپل تک پہنچا دیتے۔ احد کی داستان چھیڑتے ہوئے صلح حدیبیہ اور ریاست مدینہ کا سارا نقشہ ہی بیان کردیتے‘ ان کی گفتگو تھی کہ قوس و قزاح‘ جہاں لفظوں کے رنگ ہی رنگ تھے۔ وہ بلا کے مقرر اور اپنے نظریات سے مخلص انقلابی رہنماء تھے‘ مصلحت پسندی انہیں چھوکر بھی نہ گزری‘ ہر معاملے میں بہت کلیئر رائے رکھتے تھے‘ وہ صادق امین دیکھنے کے لیے دستور پاکستان اور عدالت عظمیٰ کی گواہی کے محتاج نہیں تھے بلکہ وہ صادق امین کو مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں تلاش کرتے تھے۔ انہیں ان کے معیار کا صادق اور امین بدر میں ملتا ہے‘ احد میں ملتا‘ غزوہ خندق میں اس سے ملاقات ہوتی‘ قبلہ منور حسن ایک سچے کھرے مسلمان اور پاکستانی تھے وہ اعمال صالح اور اپنے لواحقین کے علاوہ احباب کے دعائوں کا قیمتی اثاثہ لے کر اللہ کے حضور پیش ہوئے ہیں۔
محترمہ عائشہ منور صاحبہ اور ان کے بیٹی اور بیٹے‘ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ انہیں منور حسن جیسا شوہر اور باپ ملا‘ وہ اپنی صاحب زادی سے بہت ہی پیار کرتے تھے‘ ان کے اہل خانہ سب یہی گواہی دیں گے کہ وہ بہت ہی بااخلاق تھے‘ پوری زندگی اقامت دین کی جہدوجہد میں گزاری تحریک اسلامی بلکہ پوری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے لیے مصروف تحریکوں کے لیے راہ نما تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمے داری مارچ 2009 میں سنبھالی تھیں جس کے بعد وہ مارچ 2014 تک جماعت اسلامی کے امیر رہے تھے جماعت اسلامی کے رکن ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی فلاح وبہبود کے لیے خوب کام کیا، جس کا اندازہ ہر اس انسان کو آج بھی ہے جنہوں نے انہیں کام کرتے دیکھا ہے یا ان کے بارے میں پڑھا ہے ان کا شمار جماعت اسلامی کے ان ارکان میں ہوتا ہے جنہیں شاید کبھی بھولا نہیں جا سکتا ان کا طرز گفتگو ان کی پہچان تھا 5 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے تقسیم ہند کے وقت وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آئے اور پھر کراچی میں قیام پزیر ہوئے 1963 میں سوشیالوجی میں ماسٹر ڈگری حاصل کی اور 1966 میں جامعہ کراچی سے اسلامک اسٹڈیز میں ڈگری حاصل کی نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے بیزاری انہیں اسلامی جمعیت طلبہ میں لے آئی 1963 میں اسلامک ریسرچ اکیڈمی اور بعد میں اسلامک یروشلم اسٹڈیز میں شمولیت اختیار کی وہ 1969 میں اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ ان کی نگرانی میں اکیڈمی نے 70 علمی کتابیں شائع کیں‘ انہوں نے دی کسوٹی اینڈ دی یونیورسل میسج، کراچی کے منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں 1967 میں جماعت اسلامی پاکستان کے رکن بنے 1977 میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی نشست پر انتخاب کیا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ 1992-93 میں وہ جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل رہے اور 1993 میں سیکرٹری جنرل بنے وہ اپنے معمولی طرز زندگی کے لیے مشہور تھے دوسری جماعتوں کے ساتھ سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش کرنے کے بجائے ایک نظریہ پسند کی حیثیت رکھتے تھے جماعت اسلامی کی امارت سے فراغت کے بعد ادارہ معارف اسلامی سے وابستہ تھے‘ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔
آج اس دنیا سے سید منور حسن ہی رخصت نہیں ہوئے‘ آمنہ مسعود جنجوعہ کے غم خوار‘ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مہربان‘ ڈاکٹر مرسی کے دوست‘ ان کے بھائی‘ نجم اربکان کے مخلص ساتھی‘ سید مودودی کے ہم سفر اور سب سے بڑھ کر ایک سچے عاشق رسولﷺ‘ خاتم النبین اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں‘ یہ دنیا ایک فانی شہ ہے یہاں کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا‘ کوئی بادشاہ ہو یا غلام‘ امیر یا غریب‘ کمزور یا طاقت ور‘ منصب دار یا ماتحت سب کےچلے جانا ہے اور رہے گا نام اللہ کا‘ جو کہتے ہیں ہمارے بغیر دنیا کا نظام نہیں چلتا‘ ایسے لوگوں کے کتبے قبرستانوں کی زینت بنے ہوئے ہیں‘ سید منور حسن نے اپنی پوری زندگی میں کبھی کسی لمحے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ طاقت ور ہیں‘ ہمیشہ اللہ کے بندے بن کر زندگی گزاری‘ اور ان کی صفت تھی کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں فجر کی نماز ادا کرتے اور پہلی صف میں بیٹھتے‘ جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری سے قبل اور بعد میں ان کی زبدگی کے شب و روز نہائت نظم و ضبط کے ساتھ گزرے ہیں‘ ان کی زندگی میں کبھی کسی نے بے ڈھنگی نہیں دیکھی‘ ہر کام سلیقے سے کیا‘ اللہ کی نصرت مانگی اور اللہ کے دین کی اقامت کے لیے اپنی زندگی وقف کیے رکھی‘ ہمیشہ سچ کہا اور کھی کسی طاقت ور سے مرعوب نہیں ہوئے‘ پاکستان کی سیاسی زندگی میں انہیں ایوب خان‘ بھٹو‘ ضیاء الحق‘ ان کے بعد نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو‘ جنرل مشرف‘ شوکت عزیز جیسے حکمران دیکھنے کا موقع ملا‘ ملکی سیاسی قیادت میں کوئی ان جیسا جرائت مند نہیں تھا کہ جس نے آمر ہو یا جمہوری سکہ بند‘ سب کے سامنے ہمیشہ کلمہ حق کہا‘ اللہ کے دین کی اقامت‘ پاکستان کی سالمیت‘ عوام کی حقیقی فلاح‘ ملکی ترقی‘ خوشحالی اور امت مسلمہ کے سیاسی امیج کے لیے وہ ہمیشہ بے تاب رہے‘ نواز شریف کے دوسرے دور میں سپریم کورٹ کی عدلیہ کے ساتھ ان کا تنازعہ ہوگیا‘ جسٹس سجاد علی شاہ اور فاروق لغاری ایک جانب‘ وزیر اعظم ایک طرف کھڑے تھے‘ سید صاحب ان دنوں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری تھے‘ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے کہا کہ وہ سید صاحب سے ملنا چاہتے ہیں‘ خیر میں نے گزارش کی اور سید صاحب ان سے ملاقات ہوئی‘ اس ملاقات میں کیا بات ہوئی یہ میں نے آج تک ان سے نہیں پوچھا تھا‘ تاہم سید صاحب نے ہمیشہ وہی بات کی جس حق کے ساتھ تعلق تھا‘ ان کے ساتھ تعلق چونکہ بہت رہا اور بے شمار واقعات ہیں‘ جنہیں لکھا جاسکتا ہے تاہم ایک بات ضرور لکھنا چاہوں گا‘ جن دنوں وہ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور امیر تھے‘ ان کا معمول تھا کہ وہ نماز عشاء کے بعد کبھی کسی کارکن کو جو ان کے ساتھ ربط میں ہو‘ کبھی انہوں نے رات نو بجے کے بعد تنگ نہیں کیا‘ سید صاحب نہائت صاحب الرائے شخصیت تھے‘ وہ جنرل ضیاء الحق کے اسلام کو ملکہ اور مدینہ کی گلیوں میں تلاش کرنے نکلے مگر انہیں جنرل ضیاء الحق کا اسلام نہیں ملا‘ اسی طرح انہوں نے جنرل مشرف کا نعرگ سب سے پہلے پاکستان‘ ملک کے کونے کونے میں تلاش کیا‘ ریگستان اور صحرا چولستان بھی گئے‘ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں‘ پنجاب کے میدانوں‘ کے پی کے چشموں اور سندھ کے ہاریوں کے پاس گئے مگر انہیں سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ نہیں ملا‘ ہاں انہیں لاپتہ افراد کے نوحے ملے‘ اور یہ نوحے ہر جگہ ملے‘
نائن الیون کے بعد جب امریکہ افغانستان پر چڑھ دوڑا تو ان کی رائے میں بہت واضح تھی‘ وہ پاکستان کی سرزمین‘ فضا اور بحری حدود امریکہ کے استعمال کے لیے دینے کے سخت خلاف تھے اور کھلے عام حکومت پر جائز تنقید کرتے تھے‘ اور جرائت کے ساتھ حکمرانوں کے سامنے سوالات اٹھائے‘ ایسی جرائت ملک کے سیاسی سیاسی رہنماء میں نہیں دیکھی‘ داکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ حوالگی کے خلاف ان کی جدوجہد‘ ان کی رائے اور جرائت مندانہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے‘ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے دعوی کیا کہ اس نے چھ سو طالبان مجاہدین کے امریکہ کے حوالے کیے ہیں‘ سید منور حسن نے جنرل مشرف کے اس فیصلے پر ملک میں رائے عامہ ہموار کی‘ گلی گلی کوچے کوچے جاکر عوام کو بتایا کہ ملت اسلامیہ کی کتاب میں غداری کسے کہتے ہیں‘ ہر حکمران ان سے بہت خائف تھے اور کسی حد تک تنگ بھی‘ مگر سید منور حسن کی پشت پر ایک قوت تھی یہ قوت ان کی سچائی اور جرائت تھی انہوں نے جو بھی رائے بنائی‘ اس کے لیے ملت اسلامیہ کے مفاد‘ پاکستان کی اساس کے ہر ہر پتھر کو اپنی نظر میں رکھا‘ سید صاحب کے انتقال سے فلسطینی‘ کشمیری اور دنیا جہاں کے مظلوم مسلمان آج خود کو یتیم تصور کرتے ہیں‘ سید منور حسن کی جسارت سے دلی وابستگی تھی‘ جسارت جیسے اخبار کے لیے ان کے دل میں بہت قدر تھی اور سچی بات لکھی جائے تو سچ یہی ہے کہ آج اگر جسارت شائع ہورہا ہے تو یہ انہی کے فیصلے کی وجہ سے ہورہا ہے‘ وہ انتہائی سادہ زندگی کے قائل رہے‘ سچی درویش کی طرح زندگی گزاری‘ تعلیم یافتہ تھے‘ کمال کے باصلاحیت بھی تھے‘ جرائت مند بھی تھے اور فیصلہ سازی کی قوت بھی انہیں اللہ نے عطا کر رکھی تھی‘ چاہتے تو دنیا میں بہت کچھ کماسکتے تھے پیسہ دھیلہ کمانا ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا‘ مگر جب وہ نیشنلسٹ زندگی چھوڑ کر محمد عربیﷺ خاتم النبین کی دعوت عام کرنے والے قافلہ سخت جان کا حصہ بنے تو سب کچھ اپنی جدوجہد پر قربان کردیا‘ سادگی اس قدر کہ اب کوئی سادگی تلاش کرے گا‘ سادگی اور تقویٰ کے لیے اپنی زندگی کھپا دینا ہی ان کی اصل پہچان ہے‘ جب بھی اسلام آباد ان سے ہر وقت ملاقات رہی‘ چاہے ان کی مصروفیت کتنی ہی ہو‘ ہمیشہ شفقت کی‘ بلکہ جب بھی ملتے‘ غور سے دیکھتے اور کندھے پر ہاتھ رکھتے اور پھر پیار سے کہتے‘’’ لگ رہا ہے کچھ کچھ صحت پکڑ لی ہے‘‘ ان کا یہ جملہ ساری عمر یاد رہے گا‘ مگر یہ بھی اب ان جیسی شفقت ملے گی بھی نہیں‘ وہ بہت بڑے انسان تھے‘ منصب اور سیاسی پہچان ان کے سامنے کچھ نہیں تھی‘ اب منصب تو وہی ہیں مگر ان پر براجمان لوگ‘ ایسے ہیں کہ وہ وہ خود کو منصب سے بڑا سمجھتے ہیں‘ شفقت‘ پیار‘ محبت بھرے تعلق نام کی کوئی چیز ان کے دامن میں نہیں ہے‘’ سید منور حسن ہر لحاظ سے بڑے آدمی تھے انتہائی دیانت دار، متقی، سادہ طرز زندگی گزارنے والے۔ اپنی پوری زندگی تحریک اسلامی کے لئے وقف کر دی‘ قسم ہے انہوں نے واقعی بے داغ زندگی گزاری ہے وہ کراچی کے لیے بھی سوچتے تھے لیکن اسلام آور پاکستان‘ ملت اسلامیہ کے لیے سوچنا ان کے داعی ہونے کا تقاضہ تھا سید صاحب خوش اخلاق، خوش خلق انسان تھے جب وہ جماعت اسلامی کے ا میر تھے ان کی صاحب زادی کی شادی ہوئی دوست احباب کو دعوت نامے بھجوائے اور تاکید کی کہ مہمان تحفہ دینے کی زحمت نہ فرمائیں۔ اس کے باوجود احباب کچھ نہ کچھ تحائف لے گئے سید صاحب نے وہ تمام تحفے جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرا دئیے، ان میں چودہ سونے کے سیٹ بھی شامل تھے ملکی سیاست میں ایسی مثال کہاں؟سید منور حسن شاندار زندگی گزار کر رخصت ہوئے ہیںدرویشی اور استغنا کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور اب شان کے ساتھ اللہ کے حضور پیش ہوگئے ہیں‘اللہ کریم ان کی بخشش فرمائے، ان کی روح کو سکون دے، ان پر خصوصی کرم فرمائے، آسانیاں عطا کرے، خطائوں کونیکیوں میں تبدیل کرے‘ آمین