عوام بہت مشتعل ہیں۔ وجوہات مختلف ہیں لیکن اپنا غصہ نکالنے پر اتر آئے ہیں۔ امریکا کی صورتحال سامنے ہے جہاں ایک پولیس افسر کی درندگی نے ایک سیاہ فام کی جان لے لی جس پر نہ صرف امریکا بلکہ یورپ کے کئی ممالک میں پرتشدد ہنگامے شروع ہو گئے۔ پاکستان میں سیاہ فام اور سفید فام کی کوئی تخصیص نہیں اور ملک بھر کی پولیس کمزور اور لاچار افراد سے یکساں سلوک کرتی ہے۔ لاہور میں ایک نیم دیوانے شخص کا یہ جملہ یادگار ہے جس نے پولیس والوں سے پوچھا تھا کہ ’’تم نے مارنا کس سے سیکھا‘‘۔ اس کا جواب پولیس کے جیالوں نے اسے ہلاک کر کے دیا۔ ساہیوال میں دن دہاڑے اے ٹی سی کے بہادر اہلکاروں نے پورے خاندان کو موت کی نیند سلا دیا۔ تازہ واقعہ پشاور کے علاقے تہکال کا ہے جہاں پولیس اہلکاروں نے ایک نوجوان کو برہنہ کرکے اس پر تشدد کیا۔ اس کی وڈیو سامنے آتے ہی عوام بپھر گئے اور دو دن سے پرتشدد ہنگامہ جاری ہے۔ لوگوں نے تھانے پر بھی حملہ کیا۔جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ جمعہ کو بھی یہ احتجاج عروج پر تھا۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں گزشتہ 7 سال سے تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وزیراعظم وہاں کی پولیس کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ لیکن یہی پولیس ملزموں کو ننگا کر رہی ہے۔ یہ تو خیبرپختونخوا کا کلچر کبھی نہیں رہا۔ کے پی کے وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ تینوں پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ایس ایس پی کو بھی برطرف کر دیا گیا ہے لیکن عوام کا غصہ کم نہیں ہوا۔ وہ سخت ترین سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے عمران خان کی پیروی کرتے ہوئے ہنگاموںکا الزام مخالف عناصر پر عاید کر دیا۔ پنجاب میں پولیس نے کورونا سے بچائو کی احتیاطی تدابیر نہ کرنے والے تین افراد کو بجلی کے کرنٹ لگا کر سزا دی۔ ان کو سزا ملی یا نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ امریکا کی طرح پاکستان میں بھی ملک بھر میں پولیس کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئیں۔ اس سے پہلے ہی پولیس میں اصلاح کی کوشش کرلیں ورنہ ہر شخص پوچھے گا کہ ظلم کے یہ ہتھکنڈے کہاں سے سیکھے۔ پولیس اہلکاروں کو معطل کیا جاتا ہے لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ان کا کہیں تبادلہ کر دیا جاتا ہے اور وہ بحال ہو جاتے ہیں۔ لوگ ان کی حرکتیں بھول جاتے ہیں۔ پولیس کے ایسے اہلکاروں کو بھی وہی سزائیں ملنی چاہییں جو وہ دوسروں کو دیتے ہیں۔ لیکن قانون راستہ روک سکتا ہے۔