بڑے خواب بڑی قربانی

243

نزہت منعم
معروف اسکالر شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں کہ ’’خواب انسان کو معمولی سے غیر معمولی بناتے ہیں‘‘۔ یعنی بڑے خواب انسان کو بڑا اور چھوٹی خواہش انسان کو چھوٹا بنا دیتی ہے۔ بحیثیت مسلمان جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو محیّر العقول کارنامے انجام دینے والی شخصیات نظر آتی ہیں۔ بلال حبشیؓ کا تپتی ریت پر احد احد پکارنا، سیدنا علیؓ کا خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ پھینکنا، طارق بن زیاد کا کشتیاں جلانا، محمد بن قاسم کا چند ہزار کی فوج سے کافروں کے لشکر کو شکست دینا، سلطان محمد فاتح کا خشکی پر کشتیاں چلا کر سمندر میں اُتارنا، ہمارے دور کے ’’مفکرین‘‘ کو اتنا حیران کرتا ہے کہ وہ ان حقائق کا انکار ہی کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف اپنی ظاہری آنکھ ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت پسند تاریخ کی ہر اس حقیقت کو جھٹلاتے ہیں جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے ہو۔ عن قریب یہ حصول پاکستان کے لیے ہونے والی بیش بہا قربانیوں کو بھی جھٹلانے والے ہیں، اس کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں بلند شخصیات کے بلند خوابوں کی اور ان خوابوں کے وارثوں کی۔ ان بلند شخصیات کی یہ قدر مشترک ہے کہ انہوں نے خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کی کوششیں شروع کردیں۔ انہوں نے دعا کی لیکن صرف دعا نہیں کی کہ کوئی آئے اور ان کے خوابوں کو پورا کرے۔
خواب دیکھنے والے کی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو بیج تو بوتا ہے لیکن اس درخت کی چھائوں اور پھل عموماً اس کے حصے میں نہیں آتے لیکن خواب دیکھنے والا اس فکر سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ بیج بوتا ہے اور اس بیج کی حفاظت اور آبیاری کے لیے افراد کی آنکھوں میں اپنے خواب کو منتقل کرتا ہے۔ منتقلی کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ تناور درخت کی صورت میں اس خواب کے وارثوں کو پھل ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ نازک مقام ہے جب غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ خواب کے وارث اپنے مشن سے غافل ہو جاتے ہیں۔ منتقلی کا عمل رک جاتا ہے۔ سب اس درخت سے زیادہ سے زیادہ پھل پانے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں یوں وہ درخت ہی ختم ہو جاتا ہے۔
مسلم سلطنتوں کا عروج وزوال اسی مثال سے عبارت ہے۔ فرق یہ ہے کہ ان سلطنتوں کے عروج وزوال کو کم یا زیادہ ہزار سال لگے جبکہ ہم اپنے وطن، آزادی کے خواب اور نظریہ کی حفاظت سو سال بھی نہ کر سکے۔ ہم بحیثیت پاکستانی ایک بھی بڑا خواب اپنی نسلوں کو منتقل نہ کرسکے۔ ہم علامہ اقبالؒ اور قائد عظم ؒ کے خواب کی حفاظت نہ کرسکے۔ پاکستان تو بن گیا۔ قرآن و سنت کی شکل میں نظام بھی ہمارے پاس تھا۔ نظام کے نفاذ کا مسئلہ ہے۔ خواب کا تسلسل خواب کے حصول سے زیادہ مشکل ہے۔ یہ تسلسل بڑی قربانی مانگتا ہے، یہ تسلسل نظام کی مضبوطی سے حاصل ہوتا ہے۔ اور نظام کی مضبوطی اس کی اپنی ذات پر نفاذ سے شروع ہوتی ہے۔ صرف ابو بکرؓ و عمرؓ جیسے حکمرانوں کے لیے صرف دعا مانگنے سے کچھ نہیں ہوگا اس کے لیے ان کے طریقہ کار کو اپنانا ہوگا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نظام کا نفاذ سب سے پہلے اپنی ذات پر کیا، کوئی عزیز، کوئی رشتہ دار کسی اصول سے ماورا نہیں تھا۔ یہی تفریق ظلم بن جاتی ہے اور عدل کو ختم کردیتی ہے۔ اولین شرط نظام کا نفاذ اپنی ذات سے ہو۔
اگلا قدم اہل افراد کی تلاش اور انہیں اس نظام کا حصہ بنانا ہے اپنے خواب کو ان کی آنکھوں میں منتقل کرنا ہے یہاں کمی اور کوتاہی بڑے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن یہ کام وہی کرسکتے ہیں جنہیں اپنی کرسی چھن جانے کا خوف نہ ہو، غم نہ ہو۔ ابو بکرؓ دنیا سے جارہے ہیں اور انہیں اطمینان ہے کہ عمرؓ ہیں۔ عمرؓ دنیا سے جا رہے ہیں اور اطمینان ہے کہ عثمانؓ ہیں، علیؓ ہیں، عبد الرحمان بن عوفؓ ہیں۔ یہ اطمینان کیوں ہے اس لیے کہ خواب ایک ہے۔
اب اس ساری بات سے ہمارے ذہن میں صرف ہمارے حکمران نہ ہوں بلکہ جو جہاں سربراہ ہے وہ اس کام کا آغاز کرے، جو جہاں ذمے دار ہے وہ شروع کرے، پھر دیکھیں کس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن یہ کام وہ نہیں کرسکتے جن کو اپنے اختیارات چھن جانے کا خوف لاحق ہو۔ بڑے خواب کے آگے یہ چیزیں بہت چھوٹی ہیں۔ یاد رکھیں بلالؓ چلتے زمین پر تھے اور چاپ جنت میں سنائی دیتی تھی۔ یہ مقام یونہی تو نہیں مل جاتا ذرا سوچیں!! 200627-04-5
بڑے خواب بڑی قربانی
نزہت منعم
معروف اسکالر شاہنواز فاروقی لکھتے ہیں کہ ’’خواب انسان کو معمولی سے غیر معمولی بناتے ہیں‘‘۔ یعنی بڑے خواب انسان کو بڑا اور چھوٹی خواہش انسان کو چھوٹا بنا دیتی ہے۔ بحیثیت مسلمان جب ہم اپنی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو محیّر العقول کارنامے انجام دینے والی شخصیات نظر آتی ہیں۔ بلال حبشیؓ کا تپتی ریت پر احد احد پکارنا، سیدنا علیؓ کا خیبر کے قلعے کا دروازہ اکھاڑ پھینکنا، طارق بن زیاد کا کشتیاں جلانا، محمد بن قاسم کا چند ہزار کی فوج سے کافروں کے لشکر کو شکست دینا، سلطان محمد فاتح کا خشکی پر کشتیاں چلا کر سمندر میں اُتارنا، ہمارے دور کے ’’مفکرین‘‘ کو اتنا حیران کرتا ہے کہ وہ ان حقائق کا انکار ہی کردیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صرف اپنی ظاہری آنکھ ہی پر بھروسا کرتے ہیں۔ یہ حقیقت پسند تاریخ کی ہر اس حقیقت کو جھٹلاتے ہیں جن کا تعلق اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ سے ہو۔ عن قریب یہ حصول پاکستان کے لیے ہونے والی بیش بہا قربانیوں کو بھی جھٹلانے والے ہیں، اس کا آغاز تو ہو ہی چکا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں بلند شخصیات کے بلند خوابوں کی اور ان خوابوں کے وارثوں کی۔ ان بلند شخصیات کی یہ قدر مشترک ہے کہ انہوں نے خواب دیکھا اور اس کی تعبیر کی کوششیں شروع کردیں۔ انہوں نے دعا کی لیکن صرف دعا نہیں کی کہ کوئی آئے اور ان کے خوابوں کو پورا کرے۔
خواب دیکھنے والے کی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو بیج تو بوتا ہے لیکن اس درخت کی چھائوں اور پھل عموماً اس کے حصے میں نہیں آتے لیکن خواب دیکھنے والا اس فکر سے آزاد ہوتا ہے۔ وہ بیج بوتا ہے اور اس بیج کی حفاظت اور آبیاری کے لیے افراد کی آنکھوں میں اپنے خواب کو منتقل کرتا ہے۔ منتقلی کا یہ عمل جاری رہتا ہے یہاں تک کہ تناور درخت کی صورت میں اس خواب کے وارثوں کو پھل ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وہ نازک مقام ہے جب غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں۔ خواب کے وارث اپنے مشن سے غافل ہو جاتے ہیں۔ منتقلی کا عمل رک جاتا ہے۔ سب اس درخت سے زیادہ سے زیادہ پھل پانے کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں یوں وہ درخت ہی ختم ہو جاتا ہے۔
مسلم سلطنتوں کا عروج وزوال اسی مثال سے عبارت ہے۔ فرق یہ ہے کہ ان سلطنتوں کے عروج وزوال کو کم یا زیادہ ہزار سال لگے جبکہ ہم اپنے وطن، آزادی کے خواب اور نظریہ کی حفاظت سو سال بھی نہ کر سکے۔ ہم بحیثیت پاکستانی ایک بھی بڑا خواب اپنی نسلوں کو منتقل نہ کرسکے۔ ہم علامہ اقبالؒ اور قائد عظم ؒ کے خواب کی حفاظت نہ کرسکے۔ پاکستان تو بن گیا۔ قرآن و سنت کی شکل میں نظام بھی ہمارے پاس تھا۔ نظام کے نفاذ کا مسئلہ ہے۔ خواب کا تسلسل خواب کے حصول سے زیادہ مشکل ہے۔ یہ تسلسل بڑی قربانی مانگتا ہے، یہ تسلسل نظام کی مضبوطی سے حاصل ہوتا ہے۔ اور نظام کی مضبوطی اس کی اپنی ذات پر نفاذ سے شروع ہوتی ہے۔ صرف ابو بکرؓ و عمرؓ جیسے حکمرانوں کے لیے صرف دعا مانگنے سے کچھ نہیں ہوگا اس کے لیے ان کے طریقہ کار کو اپنانا ہوگا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نظام کا نفاذ سب سے پہلے اپنی ذات پر کیا، کوئی عزیز، کوئی رشتہ دار کسی اصول سے ماورا نہیں تھا۔ یہی تفریق ظلم بن جاتی ہے اور عدل کو ختم کردیتی ہے۔ اولین شرط نظام کا نفاذ اپنی ذات سے ہو۔
اگلا قدم اہل افراد کی تلاش اور انہیں اس نظام کا حصہ بنانا ہے اپنے خواب کو ان کی آنکھوں میں منتقل کرنا ہے یہاں کمی اور کوتاہی بڑے نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ لیکن یہ کام وہی کرسکتے ہیں جنہیں اپنی کرسی چھن جانے کا خوف نہ ہو، غم نہ ہو۔ ابو بکرؓ دنیا سے جارہے ہیں اور انہیں اطمینان ہے کہ عمرؓ ہیں۔ عمرؓ دنیا سے جا رہے ہیں اور اطمینان ہے کہ عثمانؓ ہیں، علیؓ ہیں، عبد الرحمان بن عوفؓ ہیں۔ یہ اطمینان کیوں ہے اس لیے کہ خواب ایک ہے۔
اب اس ساری بات سے ہمارے ذہن میں صرف ہمارے حکمران نہ ہوں بلکہ جو جہاں سربراہ ہے وہ اس کام کا آغاز کرے، جو جہاں ذمے دار ہے وہ شروع کرے، پھر دیکھیں کس طرح دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن یہ کام وہ نہیں کرسکتے جن کو اپنے اختیارات چھن جانے کا خوف لاحق ہو۔ بڑے خواب کے آگے یہ چیزیں بہت چھوٹی ہیں۔ یاد رکھیں بلالؓ چلتے زمین پر تھے اور چاپ جنت میں سنائی دیتی تھی۔ یہ مقام یونہی تو نہیں مل جاتا ذرا سوچیں!!