عدلیہ کی ذمے داری

288

جب سے کورونا وائرس پھیلا ہے حکومتی عملے کی موجیں ہوگئی ہیں، ’کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے‘ والامعاملہ ہے اس ضمن میں عدلیہ کی کارکردگی قابل توجہ ہے اس بارے میں یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ جج اور جسٹس صاحبان عوام کے بنیادی حقوق کے بارے میں کتنے مخلص ہیں۔ فوج عوام کو بیرونی دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے کہ یہی اس کی بنیادی ا ور اولین ذمے داری ہے۔ اس طرح عدلیہ اولین ذمے داری یہ ہے کہ وہ عوام کو اندرونی دشمنوں سے تحفظ فراہم کرے۔ اگر ہم دیانت داری سے اس معاملے پر غور کریں تو احساس ہوتا ہے کہ عدلیہ نے 72برسوں میں قوم کو تحفظ فراہم کرنے میں اتنی کوتاہی برتی ہے کہ اقوام عالم میں قوم کوتاہ قامت ہو کر رہ گئی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مقدمات کے انبار نے مسند انصاف پر براجمان شخص کو مجبور محض بنا دیا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی جج یا جسٹس ایک دن میں سو، ڈیڑھ سو مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتا تو پھر… جج اور جسٹس صاحبان کی میز پر مقدمات کا انبار کیوں لگا دیا جاتا ہے؟ اس انبار کو دیکھ کر سماعت ہی نہیں کی جاسکتی، صرف پیشی دی جاسکتی ہے۔ پیشی منسوخ کی جاسکتی ہے یا لیفٹ اوور کا ہتھوڑا چلایا جاسکتا ہے۔
سیانے کہتے ہیں تخریب میں بھی تعمیر کا پہلو ہوتا ہے، کورونا وائرس کی وجہ سے سماعت نہیں کی جاسکتی مگر جج اور جسٹس صاحبان بے بنیاد اور جعلی مقدمات سے قوم کو نجات دلا سکتے ہیں۔ اس وقت عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں جتنی بھی اپیلیں سماعت کی منتظر ہیں ان میں سے اکثر عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہوچکی ہیں ان اپیلوں پر غور کرکے اور فیصلہ سنا کر مقدمات کے شکنجے میں پھنسے ہوئے سائلین کو نجات دلائی جاسکتی ہے۔ عدالتوں کو مقدمات کے انبار سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عدلیہ اپنی ذمے داری کو نبھانے کا تہیہ کرلے۔ ہمارے نظام عدل ایسے خطوط پر استوار کیا گیا ہے جس کی کوئی بھی لکیر سیدھی نہیں ہے۔ بد نصیبی یہ بھی ہے مقدمہ بازی کاروبار بن گیا ہے۔ جس ملک میں مقدمات کی خرید و فروخت ہوتی ہو وہاں انصاف کی فراہمی ممکن ہی نہیں، جج صاحبان کا نقطہ نظر انصاف کی فراہمی کے بجائے سائلین کی عزت نفس سے کھیلنا ہو تو وہاں پیشی در پیشی کا کھیل ہی کھیلا جاتا ہے۔ کسی جج کو یہ توفیق نہیں ہوتی نہ اس کی تربیت دی جاتی ہے کہ وہ فائل پڑھ کر سماعت کا فیصلہ کرے۔ اس کا کام نیکسٹ کے لیے لبوں کو جبنش دینا ہوتا ہے اور پیشی پر پیشی ڈال اپنے چیمبر میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر تصور جاناں سے لطف اندوز ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوتا کیونکہ کہ جج اور جسٹس صاحبان کو انصاف فراہم کرنے کی نہیں عدالت میں حاضر ہونے کی تنخواہ دی جاتی ہے۔
سول کورٹ مدتوں بعد کسی مقدمے کو عدم ثبوت کی بنا پر خارج کردیتی ہے تو پھر سیشن کورٹ، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک اپیل در اپیل کا یہ ابلیسی چکر چلتا رہتا ہے اور نظام عدل میں کوئی ایسا میکنزم نہیں جو کسی شہری کے تیس، پینتیس سال برباد ہونے کا حساب لے سکے مدعی یا مدعا علیہ کو اتنی طویل مدت تک ذہنی اذیت اور مالی خسارہ برادشت کرنے کا صلہ دلا سکے۔ کیونکہ جج اور جسٹس صاحبان کہتے ہیں کہ انصاف ان کا مسئلہ ہی نہیں وہ انصاف نہیں کرتے فیصلہ سناتے ہیں۔ فیصلہ غلط بھی ہوسکتا ہے اور وقت بھی لے سکتا ہے انصاف کی فراہمی کے لیے انصاف فراہم کرنا ضروری ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے میں صرف اپنی مرضی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسے ابلیس نے سیدنا آدم کو سجدہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو اس کے مرضی کے تابع تھا۔ اس نے اس کے نتائج پر تو غور نہیں کیا بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومت اپیل دائر کرے گی مگر قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب کچھ نہیں ہوتا سانپ نکل جائے تو لکیر کو پیٹنا ایسا مکا ہوتا ہے جو لڑائی کے بعد یاد آتا ہے جنگ ختم ہوجائے تو مکا صرف اپنے منہ پر ہی مارا جاسکتا ہے۔