چودھری کی چنگاری

387

فواد چودھری کے انٹرویوکی دھوم ہے۔ انہوں نے عمران خان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ہے۔ انور مقصود بھی اسمعیل میرٹھی کی زبان میں عمران خان کو یہی بات کہہ چکے ہیں۔
اٹھو بیٹا آنکھیں کھولو
بستر چھوڑو اور منہ دھولو
اتنا سونا ٹھیک نہیں ہے
وقت کا کھونا ٹھیک نہیں ہے
اس نظم کا دیہی پنجابی میں ترجمہ ہے ’’اٹھ بے غیرتا، اسکول نئیں جانا‘‘ سوال یہ ہے کہ اس ’’سوتو حکومت‘‘ کو کیسے جگایا جائے۔ جگانے کے لیے دوہتڑ لگانے کی ضرورت ہے۔ جن کے پاس دوہتڑ لگانے کی طاقت ہے وہ فی الحال گائوں کی مائی پھاتاں بننے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ آخر حکومت جاگ کر کرے گی کیا؟ سونے اور اینڈنے کے سوا حکومت کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے۔ نظام حکومت باجوہ صاحب اس خوبی سے چلا رہے ہیں کہ ’’دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آرہا ہے وہ باجوہ ہے‘‘۔ حکومت بہت پکی نیند سورہی ہے۔ یہ ہماری آپ کی نیند نہیں کہ ذرا کھٹکا ہوا جاگ اٹھے۔ حکومت کی ابتدائی کارکردگی دیکھ کر لوگوں کو مایوسی ہوئی تھی لیکن امید تھی کہ بائیس سال کی جدوجہد کے بعد حکوت ہاتھ آئی ہے، جلد ہی سدھر جائیں گے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ کارکردگی بد سے بدتر ہوتی گئی۔ اب دوبرس بعد صورتحال یہ ہے کہ حکومت کا نام سنتے ہی لوگوں کے منہ سے گالیوں کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں۔ اسمعیل میرٹھی صاحب نے یہ بھی کہا ہے کہ بستر چھوڑو اور منہ دھولو۔ دو برس میں حکومت نے جتنی کالک منہ پر مل لی ہے کیا وہ محض دھونے سے دور ہوجائے گی؟۔
تحریک انصاف کا حال اس چارپائی جیسا ہے حکومت میں آنے سے پہلے جس کے چاروں اضلاع درست تھے لیکن حکومت کی بارش پڑتے ہی ایسی کان آئی ہے کہ چارپائی صحیح طرح زمین پر ٹکنے کا نام نہیں لے رہی۔ لاکھ اچھل کود کرلو، چاروں پائے زمین پر لگنے کا نام نہیں لے رہے۔ جہانگیر ترین، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی نے حکومت کی دال جس طرح جوتیوں میں بانٹی ہے، فواد چودھری نے اس کی درست نشاندہی کی ہے۔ یادش بخیر عمران خان نے ایک مرتبہ پارٹی میں الیکشن کروانے کی کوشش کی تھی۔ پوری پارٹی جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی کے کیمپوں میں بٹ گئی تھی۔ حکومت ملی تو صورت حال یہ بنی کہ جہانگیر ترین کو موقع ملا تو اس نے اسد عمر کی چھٹی کرادی۔ اسد عمر دوبارہ حکومت میں آئے تو انہوں نے جہانگیر ترین کی چھٹی کروا دی۔ شاہ محمود قریشی کی یہ وہ گنگا ہی نہیں جس میں وہ منہ ہاتھ دھوئیں۔ وہ خود کو وزیراعظم دیکھتے ہیں۔ اس چراند میں پڑنے کے بجائے وہ اس وقت کے منتظر ہیں جب پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ اس انتہا پر پہنچ جائے کہ بوٹوں والوں کے لیے اگلا وزیراعظم انہیں بنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت ملی تو ان کا واسطہ غلام اسحق خان کی گھورتی آنکھوں اور سن گن لیتے کانوں سے پڑا۔ غلام اسحق خان بے نظیر کو ذاتی طور پر بھی کچھ نا پسند کرتے تھے۔ غلام اسحق خان اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارے تھے۔ بے نظیر کو ایک طرف غلام اسحق کی سازشوں اور دوسری طرف فوج کی عدم حمایت کا سامنا تھا۔ نتیجہ اٹھارہ مہینے بعد ہی بے نظیرکو گھربٹھا دیا گیا۔ نواز شریف اس وقت غلام اسحق خان اور فوج دونوں کے چہیتے تھے لیکن نجانے کیوں اقتدار سنبھالنے کے بعد نہ وہ چین سے بیٹھ سکے نہ غلام اسحق خان۔ ڈیڑھ دوسال بعد وہ بھی 58-2B کا شکار ہوگئے۔ اس میں بے نظیر بھٹو اور غلام اسحق خان کے گٹھ جوڑ کا بھی بڑا دخل تھا۔ وہی غلام اسحق خان جن کی نظر میں زرداری سے زیادہ کوئی کرپٹ نہیں تھا زرداری سے حلف لے رہے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے وعدے کے برخلاف غلام اسحق کی جگہ بھائی فاروق لغاری کو صدر بنادیا لیکن وہ بھی ان کے لیے غلام اسحق ہی ثابت ہوئے۔ ایک مرتبہ پھر نوازشریف کے سر پر ہما بٹھادیا گیا۔ نواز شریف نے پہلے 12اکتوبر کو جنرل پرویز مشرف کو پھر جنرل پرویز مشرف نے انہیں برطرف بلکہ ہائی جیکر قراردے کر جیل میں ڈال دیا۔ اس مرتبہ سعودی بھائی مدد کو آئے اور نواز شریف کی جان بچ گئی۔ تیسری مرتبہ نواز شریف کے سینگ جنرل راحیل شریف سے پھنس گئے۔ اس دوران عدالتوں نے بھی اکثر وبیش تر فوج کے نمائندے کا کردار ادا کیا۔ عمران خان کو ایسی کسی صورت حال کا سامنا نہیں۔ جنرل باجوہ کی انہیں مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ عدلیہ نے بھی ان کی طرف سے پیٹھ کررکھی ہے۔ جتنی حمایت عمران خان کو حاصل ہے گزشتہ دوتین دہائیوں میں شاید ہی کسی حکومت کو ملی ہو لیکن پھر بھی حکومت جاگنے کا نام نہیں لے رہی۔ اب تو فواد چودھری جیسے گھر کے چراغ تاریکی کی نشاندہی کررہے ہیں۔
فوادچودھری کی یہ بات بالکل درست ہے کہ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے جھگڑوں سے جو خلا پیدا ہوا اسے غیر منتخب افراد نے پر کردیا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ تمام اہم عہدوں پر غیر منتخب افراد بیٹھے ہوئے ہیں۔ جن کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔ اینٹی نار کوٹکس فورس کے ڈائر یکٹرجنرل میجر جنرل عارف ملک۔ سپارکو کے ڈاریکٹر میجر جنرل قیصر انیس۔ پی آئی اے کے چیئرمین ائر مارشل ارشد محمود۔ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل انور علی۔ نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل کے رکن جنرل باجوہ۔ اکنامک ایڈوائزری کمیٹی کے رکن جنرل باجوہ۔ نیب لاہور کے ڈائریکٹر جنرل ریٹائرڈ میجر جنرل شہزاد سلیم۔ واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین۔ وزیرداخلہ بریگیڈئر اعجاز شاہ۔ یہ محض چند نمونے ہیں۔ ان سب حضرات کا تعلق فوج سے ہے۔ جو سویلین وزیر اور مشیر ہیں فواد چودھری سمیت یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی اکثریت پرویز مشرف کی کابینہ کا حصہ تھی یا جو دیگر جماعتوں سے ہوا کا رخ دیکھ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی، ان میں سے آج کوئی بھی حکومت کا حصہ ہونا تو دور کی بات ہے عمران خان کی یادوں اور تعلق کا بھی حصہ نہیں۔
نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل اُنہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
عمران خان کی کابینہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی 50رکنی کابینہ ہے لیکن کارکردگی صفر۔ یہ کابینہ عملی طور پر دوحصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو غیر منتخب افراد پر مشتمل ہے جو طاقتور حلقوں کی طرف سے شامل کیے گئے ہیں اوپر جن کا ذکر کیا گیا۔ دوسرا حصہ وہ ہے جو منتخب افراد پر مشتمل ہے جو کروڑوں روپے لگا کر اسمبلیوں میں پہنچے ہیں۔ جن کا تعلق عوام سے ہے۔ جن کے لیے عوام کا سامنا کرنا مشکل ہورہا ہے وہ عوام میں جاتے ہیں تو چاروں طرف سے گالیاں پڑتی ہیں۔ اگلے الیکشن میں جنہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ غیر منتخب وزیروں مشیروں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں جنہوں نے انہیں بھیجا ہے۔ پارٹی ڈوبے یا تیرے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ منتخب افراد نے جس ذوق وشوق سے کابینہ میٹنگ کی باتیں میڈیا سے شیئر کی ہیں اس سے ظاہر ہے وہ پارٹی سے بیزار ہوچکے ہیں۔ انہیں اہم عہدوں پر فائز کیا گیا اور نہ ہی ان سے مشاورت کی جاتی ہے۔ کچن کابینہ جو بنی گالا میں بیٹھتی تھی وہ بھی پنکی پیرنی کی آمد کے بعد فارغ ہوچکی ہے۔ اس کی جگہ پیرنی صاحبہ نے لے لی ہے۔ پس پردہ ہلائی گئی ان کی ڈوریاں بہت مضبوط ہوتی ہیں۔ جہاں تک چھ ماہ کی مہلت کی بات ہے اس میں سنسنی کا پہلو ہے۔ کیا عمران خان کو وارننگ دے دی گئی ہے؟ لیکن چھ مہینے ہوں یا چھ سال یہ حکومت اور کابینہ کچھ کرکے دکھادے اس کے دور دور امکان نہیں۔