’’پاسبان مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘ کے مصداق امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے سخت مخالف نظر آرہے ہیں انہوں نے صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کے اس وقت نفاذ کا سارا فائدہ اسرائیل کو ہو گا اور امریکا اس ڈیل کی وجہ سے عرب ممالک سے دور ہو جائے گا۔ قبل ازیں مائیک پومپیو مئی میں اسرائیل کا دورہ بھی کر چکے ہیں اور انہوں نے اسرائیل کو ’’سی پیک‘‘ میں شمولت سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے 8مئی کو حیفا کی بندر گاہ ’’سی پیک‘‘ کے تحت چین کے حوالے کر دی تھی۔ اس پوری صورتحال کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 26جون کو ’’وائٹ ہائوس‘‘ میں ایک بڑے اجلاس کا انعقاد کیا۔ اس اجلاس میں امریکا کے سفیر برائے اسرائیل اور اسرئیل کے سفیر برائے امریکا بھی شریک ہوئے اس کے علاوہ امریکی کابینہ کے اہم ارکان بھی شریک ہوئے جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈیل آف دی سینچری کے نفاذ کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ امریکا کے سفیر برائے اسرائیل اجلاس کے فوری بعد اسرائیل روانہ ہو گئے اور انہوں 27 جون کو اسرائیل کو اس فیصلے آگاہ کر دیا اُدھر اسرائیل نے فوری طور پر ڈیل آف دی سینچری کو عملی شکل دینے کے لیے اپنی افواج کو عرب ممالک کی سرحدوں پر بڑھانا شروع کردیا ہے اور امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے صدر ٹرمپ کو ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ پر فوری طور پر عمل کرنے سے روک دیا ہے۔ اسرائیل کو امریکا میں ہونے والے تاریخ کے بد ترین ہنگاموں کی وجہ سے اس بات کی توقع نہیں ہے کہ صدر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہو سکیں گے۔ افسوس ناک خبر یہ ہے کہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین امن بات چیت کی قیادت اب سعودی عرب کے ولی عہدکریں گے لیکن تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ سعودی عرب کے ولی عہد ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کو فوری طور پر عمل کرانے کے حامی نہیں ہیں ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا جائزہ ’’او آئی سی‘‘ کے اجلاس میں 8فروی 2020ء میں لیا جاچکا ہے لیکن اس سلسلے میں ’’او آئی سی‘‘ کا کوئی خاص پلان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آنے کی کو ئی امید ہے۔ تین دن قبل بھی ’’او آئی سی‘‘ کے جلاس میں اتنی بڑی تبدیلی کے حوالے سے کوئی خاص بات سامنے نہیں آئی۔
صدر ٹرمپ کے ’ڈیل آف دی سینچری‘ کے اہم نکات کچھ اس طرح ہیں۔ اس بھیانک منصوبے میں غزّہ کو ’’فلسطین اتھارٹی‘‘ کے ماتحت کرکے ’’حماس‘‘ کی مزاحمت کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ درج بالا تمام نکات پر تیزی سے کام شروع ہوچکا ہے اور 8سے 10دن کے دوران اس کام میں مزید تیزی کا امکان ہے۔ عرب حکمران اس ڈیل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پوری طرح مستعد ہیں۔ سلطنتِ عمان کی طرف سے اسرائیل کو بہت پہلے باقاعدہ تسلیم کرنا اور مشرف دور میں اعلیٰ اسرائیلی حْکام کا پْراسرار انداز میں پاکستان کا مبینہ دورہ کرنا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اور پاکستان میں اس ڈیل پر ہونے والی ایک سال سے جاری بحث میں اسی سلسلے کی کڑی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ آئندہ دو ہفتوں میں ڈیل آف دی سینچری کے نام سے مسلمانوں کے ساتھ اس صدی کا سب سے بھونڈا ظلم کرنے والی ہے۔ تفصیلات کے مطابق عظیم تر اسرائیل کی طرف پیش قدمی کی سرپرستی کرتے ہوئے یہ طے کیا گیا ہے کہ مصر، غزہ سے متصل وادی سینا میں 770 مربع کلو میٹر کا رقبہ دے گا جہاں فلسطینی مسلمانوں کو آباد کیا جائے گا۔ اس کے بدلے فلسطین کو اسرائیل کے وسط میں مغربی کنارے کے 12 فی صد (یعنی 720 مربع کلومیٹر) اہم ترین مزاحمتی علاقوں سے دست بردار ہوکر اسے اسرائیلی ریاست کے حوالے کرنا ہوگا۔ فلسطینیوں کو مصری سرزمین میں آباد کرنے کے عوض اسرائیل، مصر کو وادی فیران کی720 مربع کلومیٹر کی پٹی اور پْرکشش اقتصادی پیکیجز دے گا۔
تاریخ کے اس نازک موڑ پر حسبِ روایت عالم اسلام کے حکمران ڈونکی راجاؤں کو اس طرح کے دیگر ’’ایشوز‘‘ میں اْلجھا کر صہیونی قوتیں قبلہ اول بیت المقدس کا قضیہ نمٹانے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی نئی یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کو ’حقیقت پسندانہ دو ریاستی‘ حل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلیوں یا فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ کے پلان کے اہم نکات کیا ہیں؟جن علاقوں کو صدر ٹرمپ نے اسرائیلی علاقہ تسلیم کیا ہے ان میں امریکا اسرائیل کی مکمل خودمختاری تسلیم کرے گا۔ اس پلان میں صدر ٹرمپ نے ایک مجوزہ نقشہ بھی پیش کیا ہے اور اس کے بارے میں صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس میں اسرائیلی علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ان کے پلان سے فلسطینی علاقہ دوگنا ہو جائے گا اور مشرقی یروشلم دارالحکومت بن جائے گا جہاں امریکا اپنا سفارتخانہ کھولے گا۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اس پلان کے تحت انہیں تاریخی طور پر فلسطینی علاقوں کا صرف 15 فی صد دیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے پلان کے مطابق یروشلم اسرائیل کا غیر مشروط اور غیر منقسم دارالحکومت ہوگا۔ اسرائیلی اور فلسطینی دونوں ہی اس شہر کے دعوے دار ہیں اور یہاں بہت سارے مقدس مقامات ہیں۔ فلسطینیوں کا اصرار ہے کہ مشرقی یروشلم جس پر اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیا تھا، یہی ان کی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت ہوگا۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس پلان کے تحت فلسطینیوں کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ مستقبل میں اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں تاہم اس حوالے سے انہوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دیں۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اس پلان کے تحت کسی فلسطینی یا اسرائیلی کو اپنے گھروں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عالمی قوانین کے تحت غیر قانونی مانی جانے والی اسرائیل کی تعمیر کردہ مغربی کنارے پر یہودی بستیوں کو ختم نہیں کیا جائے گا۔
اسرائیل اردن کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنا چکا ہے کہ یروشلم کے مقدس ترین مقام جسے یہودی ٹیمپل ماؤنٹ کہتے ہیں اور مسلمان الحرم الشریف، ان مقامات کی انتظامیہ کا موجودہ نظام برقرار رہے گا۔ اس وقت اردن وہ مذہبی ٹرسٹ چلاتا ہے جو ان مقامات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ جن علاقوں کو صدر ٹرمپ نے فلسطینیوں کے لیے مختص کیا ہے وہ آئندہ چار سال آمد و رفت کے لیے کھلے رہیں گے اور وہاں کوئی تعمیراتی کام نہیں کیا جائے گا۔ اس وقت کے دوران فلسطینیوں کے پاس موقع ہوگا کہ وہ اس پلان کا جائزہ لے لیں، اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کریں اور ’خود مختار ریاست کے لیے تعین شدہ پیمانے پر پورا اتر آئیں‘۔ منصوبے کے خدو خال کو صدر ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے مسودے کی شکل دی تھی اور اسے انتہائی رازداری میں رکھا گیا۔
رم اللہ اور غزہ کی پٹی میں ہزاروں فلسطینیوں نے احتجاج جنوری سے جاری رکھا ہو اہے، جبکہ مقبوضہ اردن کے مغربی علاقو ں میں اسرائیل نے اضافی فوج تعینات کر رکھی تھی۔
صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں آنے کے بعد اسرائیل اور بھارت ان کے بہترین دوست ہیں فلسطینی رہنماؤں نے یہ کہہ کر منصوبے کو پہلے ہی مسترد کر دیا تھا کہ یہ غرب اردن پر اسرائیلی حاکمیت کو مستقل طور پر مسلط کرنے کے مترادف ہے۔ 9جنوری 2020ء کو فلسطینی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ’’امریکی انتظامیہ کو ایک بھی ایسا فلسطینی نہیں ملے گا جو اس منصوبے کی حمایت کرے۔ ٹرمپ کا منصوبہ فلسطینی جدو جہد کو ختم کرنے کی اس صدی کی سب سے بڑی سازش ہے‘‘۔
فلسطینیوں نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ دسمبر 2017 میں اس وقت روابط ختم کر لیے تھے جب صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس کے بعد امریکا نے فلسطینیوں کے لیے دو طرفہ امداد اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کو دی جانے والی امداد بند کر دی تھی۔