پروفیسر الیف الدین ترابی‘ منور حسن اور میں

505

قبلہ سید منور حسن کے انتقال کی خبر بجلی بن کرگری‘ جب میرے والد محترم پروفیسر الیف الدین ترابی کا انتقال ہوا تو محترم سید منور حسن نے میرے سر پر ہاتھ رکھا‘ اس پیار اور شفت کا لمس آج بھی محسوس کرتا ہوں‘ ان کے انتقال پر اب سوچتا ہوں کہ کون میرے سر پر ہاتھ رکھے گا کیونکہ آج میں دوسری بار یتیم ہوگیا ہوں‘ میرا کشمیر‘ میری ڈل جھیل یتیم ہوگئی ہے میرے سید علی گیلانی اب تنہاء رہ گئے ہیں‘ سری نگر سے پلوامہ تک اور بارہ مولا سے جموں تک ہر شہ سوگوار ہے فلسطین سے یورپ میں بسنے والے مسلمان‘ سب ایک ایسی ہستی سے محروم ہوگئے ہیں جنہیں وہ اپنا غم گسار مانتے تھے اور سمجھتے تھے‘ سارے پاکیزہ نوجوان جن کی جبینوں پر جہاد کے نشان ہیں۔ وہ سب انہیں اپنا امام مانتے تھے۔ آج یہ سب غمگین ہیں۔
سیاست کے اس کلچر میں اور قیادت کے اس کھیل میں سید منور حسن منفرد اور مثال تھے۔ طلبہ سیاست سے آغاز کیا بائیں بازو کو جھٹک کر دائیں بازو کے کیمپ میں آئے سید مودودی کے علاوہ نعیم صدیقی کی تحریروں سے بھی متاثر تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے جماعت اسلامی کے کارواں میں شامل ہوئے، 1992 میں جماعت کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور 2009 میں امیر جماعت اسلامی بنے۔ 1977 کے الیکشن میں جب رکن قومی اسمبلی بنے تو ریکارڈ ووٹ حاصل کیے، سید منور حسن بائیں سے دائیں بازو کی سیاست کے شہسوار بنے تو شائستگی، بحث و تمحیص کی علمبرداری، صبر، ہنر اور وضع داری‘ ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین کے علمبردار بنے وہ جماعت اسلامی کے فکری رہنما تھے، مضبوط اعصاب اور پختہ موقف کے علمبردار تھے سید منور حسن اب ہم میں نہیں، ہر ذی نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے اور سید صاحب بھی اس کے مصداق اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔
ان کی زندگی کو دیکھتے ہوئے بڑے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ کے حضور مقبول زندگی لے کر گئے ہیں اور ان شاء اللہ ان کے درجات بلند ہوتے جائیں گے۔ انہوں نے تہجد کی نماز بھی کبھی نہیں چھوڑی۔ سیاسی زندگی بھی سخت ترین حالات مارشل لائوں اور کشمکش میں گزری‘ بھٹو کا زمانہ دیکھا اور نواز شریف کی جیل بھی بھگتی‘ وہ بلا کے مقرر تھے ان کی تقریر شاعری تھی اور نثر تھی وہ پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹتے تھے۔ 1977ء کی تحریک کے سید منور حسن جوان تھے اور ساری سیاسی زندگی میں جو بات کہہ دی سو کہہ دی‘ کبھی اپنی بات سے یوٹرن نہیں لیا، سید صاحب نے امریکی فوجیوں کے ہاتھوں مرنے والوں کو شہید قرار دینے کا سوال اٹھایا اور افغانستان میں جاری انسداد دہشت گردی کی جنگ کو امریکی جنگ قرار دیا تو بکائو میڈیا ان کے پیچھے پڑ گیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ انسداد دہشت گردی کے نام پر جنگ کو اب پاکستانی حکمرانوں نے خود امریکی جنگ قرار دے کر اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔ یہاں تک کہ جن لاپتا افراد کے بارے میں سید منور حسن کھل کر سوال کرتے تھے، سوات اور وزیرستان میں صحافیوں کی آزادانہ نقل و حرکت اور حالات کا مشاہدہ کرنے کا مطالبہ بھی وہی کرتے رہے۔
سید منور حسن پر سابق امیر قاضی حسین احمد کا اعتماد اس قدر تھا کہ انہیں اپنا قیم بنایا سید منور حسن نے جماعت اسلامی کے کارکنوں کو حق پر ڈٹ جانے کا سلیقہ سکھایا انہوں نے گو امریکا گو تحریک شروع کی‘ آج پاکستان کی سیاسی قیادت اسی نتیجے پر پہنچی ہے کہ خطے سے امریکا کے نکل جانے کے بعد ہی یہاں امن وامان ہوگا اور پاکستان و افغانستان کے مسائل حل ہوں گے۔ سید منور حسن مظلوموں کی داد رسی کے لیے بھی ہر جگہ پہنچتے تھے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ہمدرد اور اس کی رہائی کے لیے حکومتوں سے ڈٹ کر مطالبہ کرتے تھے سید منور حسن نے جو فقیرانہ زندگی گزاری سید منور حسن کو بھی سب کی طرح اس دنیا سے جانا تھا وہ چلے گئے ان سے ہمیں اور تحریک اسلامی کو جو سیکھنا تھا شاید ہم اسے نہیں سیکھ سکے اللہ ان کے درجات بلند فرمائے ہم سب دکھی ہیں سب افسردہ ہیں سب دعاگو ہیں اے اللہ سید صاحب کو اپنا سایہ عاطفت عطاء کر (آمین)