(5) اگرکسی کا وصال ہو جائے تو اس کی تکفین وتدفین سے فراغت کے بعد پہلا کام اس کے ترکے کی شریعت کے مطابق تقسیم ہونی چاہیے، جب کہ ہمارے معاشرے کے بعض افراد یہ کہہ کررد کر دیتے ہیں کہ لوگ کہیں گے: ابھی تو باپ یا ماں کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور دیکھو یہ جائداد کے بٹوارے میں لگ گئے ہیں، حالانکہ یہی لوگ دیگر معاملات میں لوگوں کی ذرا بھی پروا نہیں کرتے۔ معاشرے میں عموماً باپ کا کاروبار ان کے ساتھ کاروبار میں شریک بیٹے کے سپرد کر دیا جاتا ہے، اس وقت چلتے کاروبار کی جو پوزیشن ہوتی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نقصان یا نفع کی صورت میں مُعتَد بہ تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ تازہ تازہ غم، دُور اندیشی کی کمی، رسم ورواج سے محبت اور مسائل ِ شرع سے ناواقفیت کی بنا پر سب بہن بھائی خواستہ وناخواستہ کاروبار اسی بھائی کے سپرد کر دیتے ہیں، کوئی بھی ملامت اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔ چناںچہ نہ کوئی شرعی اصول پیشِ نظر ہوتا ہے اور نہ قانونی راہنمائی حاصل کی جاتی ہے، تو جب تک اتفاق رہتا ہے عموماً لوگ ترکے کی تقسیم کا نام نہیں لیتے، لیکن کسی ایک کے بھی اختلاف کی وجہ سے جب ترکے کی تقسیم کا مسئلہ اُٹھتا ہے تو پھر حالات قابو سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس میں چند خرابیاں درآتی ہیں:
(الف) والد یا مُورِث (وراثت چھوڑ کر وفات پانے والے) کے انتقال کے وقت کاروبار کی جو مالیت اور سائز ہوتا ہے، اس میں کافی اضافہ ہوچکا ہوتا ہے، اس سے تقسیم کے وقت مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں، (ب) کاروبار ہی کی کمائی سے وہ شخص اپنی ضروریات تو پوری کرتا رہتا ہے، لیکن نہ کاروبار کا پورا ریکارڈ رکھتا ہے اور نہ باقی بہن بھائیوں کوکوئی حصہ دیتا ہے، (ج) حالانکہ جو اس نے کمایا، اس کی بنیاد تو وہی ورثے کا پیسہ تھا، لیکن اب وارثوں کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے کہ ترکے کی مالیت کا تخمینہ مُورِث کی وفات کے وقت کا متعین کیا جائے یا کاروبار کے موجودہ سائز اور پھیلائو کے مطابق متعین کیا جائے، قیمت یا مالیت کے اعتبار سے دونوں میں واضح تفاوت ہوتا ہے اور یہی باعثِ نزاع بنتا ہے، (د) اگر اس کاروبار کو مزید بڑھانے کے لیے یا کمی آنے کی صورت میں اصل حالت پر برقرار رکھنے کے لیے اسے پیسا لگانا پڑے تو اسے بھی بروقت طے نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ بطورِ قرض ہے جو مستقبل میں کاروبار سے منہا کیا جائے گا یا تمام وارثوں سے وراثت میں اُن کے حصۂ رسدی کے تناسب سے وصول کیا جائے گا یا یہ بطورِ تبرع اور احسان کے ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لگایا گیا ہے، الغرض ان معاملات کا طے ہونا کافی دشوار ہوتا ہے، اس لیے میت کا ترکہ کسی تاخیر کے بغیر تقسیم کردینے میں ہی عافیت ہے اور یہ شعار باعثِ ملامت نہیں ہے، بلکہ شرعی تقاضا ہے۔
(6) ہمارے معاشرے میں رائج ایک غلط صورت یہ بھی ہے کہ جب والد یا کوئی بھی سرپرست اولاد کو یا اولاد میں سے کسی ایک کو کاروبار کے لیے رقم فراہم کرتے ہیں تو اس وقت اس معاملے کی نوعیت واضح نہیں کی جاتی کہ یہ رقم بطورِ قرض ہے یا بطورِ ہدیہ یا صرف معاونت کی غرض سے کہ بیٹا باپ کا معاون بن کر کام کرے گا، اس سے یہ خرابی واقع ہوتی ہے کہ باپ کی وفات کے بعد پتا چلتا ہے کہ کاروبار کرنے والا اسے اپنا ذاتی حق سمجھتا رہا، جبکہ باقی بہن بھائی اس کاروبار کو میت کا ترکہ سمجھتے رہے، پس یہ ابہام نزاع کا باعث بنتا ہے، اس سے بچنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ کاروبار کے لیے رقم فراہم کرنے سے پہلے ہی والد اس رقم کے بارے میں تصریح کر دے کہ آیا یہ رقم قرض ہے یا بطورِ تحفہ و ہدیہ یا وہ بیٹا صرف باپ کا معاون ہے اور پورا کاروبار والد کی ملکیت ہے۔ اگر رقم بطورِ قرض ہو تو بیٹا مقدارِ قرض لوٹانے کا پابند ہو گا اور اگر باپ نے اُسے یہ پیسا ہبہ کردیا ہے، تو وہ اپنے کاروبار کا مالک ہوگا اور دوسرے بہن بھائیوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا یا اُس کی حیثیت ایک کارکن کی ہوگی اور وہ اپنی محنت کے برابر معاوضے کا حق دار ہوگا، چونکہ صورتِ حال واضح نہیں ہوتی، اس لیے تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور نفرتیں جنم لیتی ہیں۔
(7) مالی معاونت کے معاملات کی پیچیدگی اور غیر واضح ہونے کی بہت زیادہ رائج صورت مشترکہ خاندانی نظام میں پیش آتی ہے، مثال کے طور پر ہر بھائی کی ایک مخصوص آمدنی ہے اور ہر ایک اپنی آمدنی کا کل یا بعض گھر کے سربراہ والد/والدہ /بڑے بھائی میں سے کسی کے پاس جمع کرا دیتا ہے، اس سے مشترکہ گھر کے اخراجات پورے کیے جاتے، جائداد بھی خریدی جاتی، کاروبار بھی شروع کیا جاتا اور کسی کو بطورِ قرض بھی دیا جاتا ہے، بعض اوقات اس مشترکہ خاندانی نظام کے نتائج شدید اختلاف کی صورت میں رونما ہوتے ہیں، جو بھائی زیادہ حصہ ڈالتا تھا، وہ مشترکہ جائداد میں زیادہ حصے کا طلبگار ہوتا ہے، جبکہ دیگر اصولِ وراثت کے مطابق برابری کے دعویدار ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں تنازعات جنم لیتے ہیں، ایسی صورتِ حال سے بچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ رقم کی ادائیگی سے قبل ہی درج ذیل امور طے کر لیے جائیں:
(الف) تمام بھائی جو بھی رقم سربراہ کو دیں گے مالکانہ حقوق کے ساتھ دیں گے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس رقم سے خریدی گئی جائداد اُسی سربراہ کی ملکیت ہو گی، کوئی اس میں علٰیحدہ سے جزوی یا کلی ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکے گا اور سربراہ کے انتقال کے بعد اس کے شرعی ورثاء میں بقدرِ حصہ تقسیم کر دی جائے گی۔ (ب) سربراہ کو جو بھی رقم دیں گے مالکانہ حقوق کے ساتھ نہیں بلکہ جائداد کی خریداری اور اخراجات وغیرہ کے لیے دیں گے، البتہ اس صورت میں یہ احتیاط ضروری ہو گی کہ تمام رقم کا حساب رکھا جائے، اگر اس سے کوئی جائداد وغیرہ خریدی ہے تو اس کا بھی حساب رکھنا ضروری ہے کہ کس بھائی کا کتنا حصہ ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ مستقبل میں ان کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں پیدا ہو گا اور باہمی رنجشوں سے بھی محفوظ رہیں گے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں سب سے عمدہ طریقہ یہ ہے یومیہ، ہفتہ وار یا ماہانہ خرچے میں چاہے مشترکہ نظام رکھیں، اس کے لیے باقاعدہ ہر فرد اپنے زیرِ کفالت افراد کے لحاظ سے یا اپنی مالی حیثیت کے مطابق رقم جمع کرائے اور اس کے علاوہ ہر بھائی اپنی بچت سے جو چاہے خریدے، اس صورت میں نہ کسی کی حق تلفی ہوگی اور نہ کوئی نزاع پیدا ہوگا۔
(8) خاتون کو اس کے سسرال کی طرف سے پہنایا جانے والا زیور بھی معاشرے میں پائے جانے والے مبہم معاملات میں سے ایک ہے، زیور کے حوالے سے بعض جگہ تو عرف اور رواج واضح ہوتا ہے کہ عورت کے پاس زیور بطورِ عاریت کے ہے اور وہ صرف ضرورت کے تحت اسے استعمال کرسکتی ہے، اس کا اصل مالک شوہر ہی رہتا ہے اور وہ جب چاہے اسے بیچ کر اپنے استعمال میں لے آتا ہے، جبکہ بعض خاندانوں میں عورت کو مالکانہ بنیادوں پر ہبہ کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض جگہ عرف واضح نہیں ہوتا، پس اس کی وضاحت ضروری ہے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے اور مستقبل میں کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔
(9) بعض اوقات والد اپنے چلتے کاروبار میں کسی ایک بیٹے کو شامل کر دیتا ہے، وہ بیٹا والد کے ساتھ کام کرتا ہے، وقت دیتا ہے، ذمے داری سنبھالتا ہے اور کاروبار میں بہتری کے لیے پوری دلجمعی کے ساتھ کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ طے نہیں کیا جاتا کہ وہ بیٹا اس کاروبار میں کس حیثیت سے شریک ہے، آیا رضاکارانہ طور پر والد کا معاون ہے یا تنخواہ دار ہے یا اُس کی خدمات کے پیشِ نظر کاروبار میں اُس کا کوئی طے شدہ حصہ ہے۔ پس معاملے میں ابہام کی وجہ سے بعد میں درج ذیل تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں: (الف) بعض اوقات ایسی صورت حال میں کام کرنے والا بیٹا تمام کاروبار کو اپنی ملکیت سمجھ کر خود قابض ہو جاتا ہے اور دیگر ورثاء کو کچھ بھی نہیں دیتا، (ب) یا پھر معاملے میں ابہام کی وجہ سے وہ اپنا مستقبل خطرے میں دیکھتا ہے تو وہ چوری چھپے مال میں خورد برد کرتا ہے یا پھر کاروباری مرکز سے ہٹ کر کہیں اور ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتا ہے۔
(ب) اگر وہ شادی شدہ ہو تو صبح وشام بیوی کے طعنے سننے کو ملتے ہیں کہ آپ کی حیثیت ہی کیا ہے، اس وجہ سے وہ ذہنی مریض بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت ِمطہرہ کی رو سے کسی کو بھی کاروبار میں شریک کرنے سے پہلے دستاویز میں درج ذیل امور طے کرنے ضروری ہیں: (i) بیٹے کی حیثیت واضح کر دی جائے کہ وہ ملازم ہے تو یومیہ، ہفتہ وار، ماہانہ یا سالانہ تنخواہ طے کر دی جائے، ایسی صورت میں بیٹا صرف تنخواہ دار ہو گا، کاروبار کا اصل مالک والد ہو گا، والد کے انتقال کے بعد ترکہ تمام ورثاء میں شرعی حصے کے مطابق تقسیم ہو گا۔ (ii) کاروبار میں ساتھ کام کرنے والے بیٹے کے لیے کاروبار میں کچھ ملکیتی حصہ طے کر کے اُسے اُس حصے کا مالک بنا دیا جائے اور نفع نقصان کی تقسیم کا کوئی اصول طے کرلیا جائے۔ (iii) اگر بیٹے کو کاروبار میں شامل کرتے وقت نہ اس کی تنخواہ مقرر کی گئی اور نہ ملکیت کے لحاظ سے کچھ طے کیا گیا تو اب اس بیٹے کی حیثیت صرف ایک معاون کی سی ہے اور اس صورت میں کاروبار کا اصل مالک والد ہوگا۔
کسی بھی بیٹے کو کاروبار میں شریک بناتے وقت اگر ان صورتوں کا لحاظ کر لیا جائے تو نہ صرف خاندانی تنازعات اور غیر شرعی کاموں کے ارتکاب سے بچا جا سکتا ہے، بلکہ یہ شعار بہترین عملی نمونہ ہونے کی وجہ سے معاشرے کے لیے سند بن سکتا ہے۔ الغرض بلوغت کے بعد معاملات اور مالی امور میں ہر شخص اپنی حیثیت رکھتا ہے، اپنے نفع ونقصان کا مالک ومختار ہوتا ہے، اپنے افعال کا خود ذمے دار ہوتا ہے، اس لیے معاملات کو مبہم رکھنے کے بجائے خوش اسلوبی اور صراحت کے ساتھ طے کردینا چاہیے اور اسے معیوب عمل نہیں سمجھنا چاہیے۔ ماں باپ کا احترام اپنی جگہ مسلّم ہے اور معاملات کی صراحت اور بروقت تصفیہ شرعی اور قانونی ضرورت ہے۔ بالغ اولاد اگر اپنے کاروبار، روزگار اور مالی معاملات میں خود مختار بھی ہو، تو ماں باپ کی خدمت اور اُن کے حقوق کی ادائی سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے، حدیثِ پاک میں ہے: ’’ایک شخص نے عرض کی: یارسول اللہ! میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی، میرے باپ چاہتے ہیں کہ میرا سارامال لے لیں، آپ ؐ نے فرمایا: تم اور تمہارا مال دونوںتمہارے باپ کے ہو، (ابن ماجہ)‘‘۔ اس حدیث کی شرح ہم تفہیم المسائل میں بیان کرچکے ہیں۔