اُسامہ شہید یا ہلاک؟

281

سرد جنگ کے خاتمے کی نتیجے میں تشکیل پانے والی یونی پولر دنیا کی عمر تیس سال ہو چکی ہے مگر ان تیس برسوں سے دنیا کے اسٹیج پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے ایک ڈراما جاری ہے اور ڈرامے میں ہیرو کا کردار اسکرپٹ رائٹر نے امریکا کو دیا اور اس میں ولن کے ایک اہم کردار کا نام اسامہ بن لادن ہے۔ یہ تو امریکا کی تقسیم اور فیصلہ ہے۔ اسامہ ہیرو یا ولن، شہید یا ہلاک اس بارے تاریخ کا فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔ نائن الیون کو دوعشرے ہونے کو ہیں مگر ابھی جڑواں میناروں کے ملبے سے اُٹھنے والا گرد وغبار فضا میں موجود ہے۔ دنیا نائن الیون کے اثرات سے پوری طرح باہر نہیں آئی۔ نائن الیون کے بعد اپنائی جانے والی اصطلاحات اور محاورے ابھی پورے طرح مستعمل ہیں۔ اس گرد وغبار میں بہت سے چہرے اور کردار ابھی دھندلے ہیں اسامہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ابھی اُسامہ کے بارے میں تاریخ کا بڑا فیصلہ آنا باقی ہے اور یہی اسامہ کے مقام کا تعین کرے گا۔ یہ ماننا پڑے گا کہ یک قطبی دنیا کی واحد طاقت نے دنیا پر ایک سحر طاری کر رکھا تھا۔ بڑے بڑے ملک اور کردار اس جادوئی اثر کی زد میں تھے۔ یک قطبی نظام کو بدلنے اور توازن قائم کرنے کی خواہش اگر کسی طاقت کے دل میں موجود بھی تھی تو اس کی مثال حالات کے خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ عرب کا متمول شخص بن لادن تھا جس نے اس یک رنگی اور یک رخی دنیا کو بدل ڈالنے کا اور زمانے کی لہروںکے اُلٹے رخ چلنے کا مشکل فیصلہ کیا۔
امریکا کے توسیع پسندانہ عزائم امن کی کوششوں کے پیچھے مسائل کو غیر منصفانہ انداز میں ٹھکانے لگانے کی خواہشات کے آگے بند ھ باندھنے والا کوئی باقی نہیں رہا تو ایک شخص اُٹھ کھڑا ہوا۔ شاید یہ اصول فطرت ہی کے خلاف تھا کہ دنیا میں صرف ایک طاقت کی کارفرمائی اور ایک طاقت کی حکمرانی ہو۔ ردعمل اور مخالفت کے بغیر دنیا کی تصویر مکمل ہی نہیں ہوتی اور جب چین اور روس جیسے ملک بھی ردعمل پر قادر نہ تھے تو اسامہ بن لادن نے یک قطبی عالمی نظام کو چیلنج کیا۔ یہ بھی صرف امریکا کی بیان کردہ کہانی اور پیش کردہ تصویر کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے۔ ابھی اس ضمن میں بہت سے حقائق سامنے آنا بھی باقی ہیں۔ امریکا نے اسامہ کی تلاش کے پورے دور میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ اسامہ کو پکڑ کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا۔ مغربی اصطلاح یہی ہے کہ وہ کبھی ملزم کو سزا دینے کی بات نہیں کرتے۔ ان کے ہاں ملزم کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا محاورہ عام ہے۔ مدتوں امریکی اسامہ بن لادن کو افغانستان کے پہاڑوں اور پاکستان کے میدانوں میں تلاش کرتے رہے۔ جب اسے ڈھونڈ لیا تو وہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا اپنا وعدہ فراموش کر بیٹھے اور اسامہ بن لادن کو کسی عدالتی نظام سے گزارنے کے بجائے موقع پر قتل کر دیا۔ یہی نہیں اسامہ افسانے کا انجام بھی کچھ اس قدر حتمی تھا کہ ان کا جسد خاکی بھی سمندر برد کردیا گیا۔ یوں ایک کہانی ختم ہو گئی اور ایک نئی کہانی لکھنے کا آغاز ہوگیا۔
امریکی چاہتے تو اسامہ کو زندہ گرفتار کرسکتے تھے۔ جس کے بعد تحیر وتجسس کی یہ کہانی پوری طرح دنیا کے سامنے آتی۔ ماضی کے دوست دشمنی تک کیوں پہنچے؟ یہ رازوں کا ایک خزانہ اور انکشافات کا ایک جنگل ہوتا۔ امریکا نے اسامہ کو نہ زندہ گرفتار کیا اور نہ انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا وعدہ نبھایا۔ امریکا کی کسی عدالت میں اس کی پیشی ہوئی اور نہ کوئی فرد جرم عائد ہوئی۔ جرح ہوئی نہ اسامہ کو صفائی کا موقع ملا۔ منصف، وکیل، ملزم کے سارے کردار امریکا نے اپنے اندر جمع کرکے اس کہانی کو انجام تک پہنچایا۔ اب وقت ثابت کررہا ہے کہ امریکا اور اسامہ کے درمیان جو آنکھ مچولی کھیلی گئی وہ آج پوری طرح کھل کر سامنے آرہی ہے۔ ایک نئی سرد جنگ کے خدوخال پوری طرح نکھر کر سامنے آرہے ہیں۔ جنوبی چین کے سمندروں میں ایک بڑی فوجی سرگرمی بتارہی ہے کہ سوویت یونین کے بعد چین کے گھیرائو کا ہدف مقرر کر لیا تھا۔ باقی سب سرگرمیاں اس منزل تک پہنچنے کی کوشش تھی۔ ایسے میں وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کے لیے شہید کے الفاظ استعمال کیے۔ یہ زبان کی پھسلن نہیں تھی کیونکہ انہوں نے ہلاک کا لفظ ادا کرنے کے بعد دوبارہ شہید کا لفظ استعمال کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے وزیر اعظم کی طرف سے اسامہ کو شہید کہنے کی بات کی وضاحت سے گریز کیا اور خود وزیر اعظم کے کسی ترجمان نے اس کی تردید کی۔ تردید ہو بھی کیسے؟ وزیر اعظم نے صرف شہید ہی نہیں بلکہ انہوں نے امریکا کی اصطلاح ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو نہایت بیزاری سے امریکا کی جنگ کہا۔ امریکا دوعشروں تک اس جنگ کو امن عالم اور کرہ ارض کے لیے ناگزیر اور انسانیت کی اجتماعی جنگ قرار دیتا رہا۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کا کندھا استعمال کرتا رہا اور اس جنگ کے مخالف ملکوں سے بھی تصدیق کا انگوٹھا لگواتا رہا۔ اس جنگ کا مرکزی ولن اسامہ بن لادن ہے۔ اس جنگ کی حقیقت اسامہ نامی کردار سے اور اسامہ نامی کردار اس جنگ سے جڑا ہوا ہے کیونکہ امریکا نے ساری جنگ اس دعوے کے ساتھ چھیڑی تھی کہ افغانستان کے پہاڑوں میں چھپے اسامہ بن لادن نے منصوبہ بندی اور وسائل مہیا کرکے نائن الیون کاحملہ منظم کیا اور اس کے بعد امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر دنیا کو تاخت وتارا ج کرنے کا راستہ اختیار کیا۔ عمران خان اس جنگ کو امریکا کی جنگ کہہ کر اس کا ڈائون پلے کر رہے ہیں تو اس جنگ کے امریکی تراشیدہ ولن کے لیے شہید کے الفاظ کہنا چنداں حیرت انگیز نہیں۔ اس پر اپوزیشن کا شورو غل محض اختلاف کی روایتی رسم ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکا اور پاکستان اس جنگ میں دو الگ سمتوں میں چلتے رہے امریکا نے دبوچ کر پاکستان کو اس جنگ میں اپنے ساتھ کھڑا کیا وگرنہ یہ دو متصادم اور دو متضاد مفادات اور نظریات کا معاملہ تھا۔ امریکا آج کے اُبھرتے ہوئے نقشے میں پاکستان کے اس مقام کا تعین چاہتا تھا جہاں آج پاکستان موجود نہیں اور پاکستان وہیں کھڑا ہونا چاہتا تھا جہاں وہ آج کھڑا ہے۔ امریکا کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دہشت گردی کے بارے میں حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا اور دوسرے ہی دن عمران خان کا اسامہ کو شہید کہنا بتارہا ہے کہ امریکا اور پاکستان کے درمیان تضادات کی خلیج نہ صرف آج بھی قائم ہے بلکہ اس میں مزید وسعت آگئی ہے۔