پیکر فقر و غِنا۔ سید منور حسن مرحوم

597

سید منور حسن کا سانحۂ ارتحال ایک ایسا واقعہ ہے جو آسانی سے بھلایا نہ جاسکے گا۔ وہ دلوں میں زندہ رہیں گے اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی دل آویز شخصیت، ان کا مسکراتا چہرہ، ان کی بولتی آنکھیں، ان کا انداز بیان، ان کی مدلل گفتگو اپنے مداحوں اور اپنے احباب کو ہمیشہ اپنے سحر میں جکڑے رہے گی۔ وہ اپنی نذر پوری کرکے ایک کامیاب و کامران زندگی کے ساتھ اپنے ربّ کے حضور پیش ہوگئے اور اپنے پیچھے ایسے نقوشِ قدم چھوڑ گئے ہیں جن پر چلنے کی ہر صاحب دل تمنا کوشش کرے گا اور اسے اپنا نصب العین قرار دے گا۔ سید منور حسن فقر و غِنا اور بے نیازی کا پیکر تھے۔ ان کی ساری زندگی اپنے مرشد سید مودودیؒ کی طرح ایک کھلی اور روشن کتاب کی مانند تھی جس کا کوئی لفظ مِٹا ہوا نہیں تھا۔ ان کی زندگی میں کوئی ابہام نہیں تھا، وہ کمیونزم اور سوشلزم کا ذائقہ چکھنے کے بعد تحریک اسلامی سے وابستہ ہوئے تھے اس لیے وہ نوجوانوں پر اِن گمراہ کن نظریوں کے اثرات کو بخوبی سمجھتے تھے اور ان کا توڑ کرنا جانتے تھے۔ نوجوان منور حسن نے اپنی تحریکی زندگی کے آغاز میں بے شمار نوجوانوں کو اپنی مدلل گفتگو سے متاثر کیا اور انہیں راہِ مستقیم پر ڈالا، انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا تو انہوں نے اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ اس کی قیادت کی اور مخالفین کے لیے جمعیت کو ایک ہوّا بنادیا۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد جماعت کے رکن بنے تو ایک کارکن کی حیثیت سے اپنی تمام صلاحیتیں جماعت کے لیے وقف کردیں۔ انہیں جاہ و منصب کا کوئی شوق نہ تھا۔ وہ تو ایک گمنام سپاہی کی حیثیت سے میدانِ کار زار میں اپنے جوہر دکھانا چاہتے تھے لیکن جس طرح جمعیت نے انہیں ڈھونڈ کر اپنی قیادت کے لیے منتخب کیا تھا اسی طرح جماعت اسلامی نے بھی ان کی قائدانہ صلاحیتوں کو پہچاننے میں تاخیر نہ کی۔ کبھی انہیں مقامی نظم سونپا گیا، کبھی انہیں صوبائی شوریٰ کی رکنیت دی گئی، کبھی انہیں جماعت اسلامی کراچی شہر کا امیر بنایا گیا اور کبھی انہیں کراچی کی طرف سے مرکزی مجلس شوریٰ میں نمائندگی کے لیے بھیجا گیا، وہ تو اللہ کے سپاہی تھے، جہاں بھی حکم ہوا وہ ڈیوٹی پر حاضر ہوگئے۔
میاں طفیل محمدؒ کے بعد قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو ان کی نظر انتخاب سید منور حسن پر پڑی اور انہیں جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت اپنا نائب بنالیا۔ چناں چہ منور صاحب بلاچوں و چرا کراچی کی رہائش ترک کرکے منصورہ لاہور آگئے اور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہنے لگے۔ سید منور حسن جماعت اسلامی میں قاضی صاحب سے سینئر تھے لیکن جب قاضی صاحب امیر جماعت بن گئے تو سید منور حسن نے نظم جماعت کے تحت ان کی سمع و طاعت میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی اور ان کے بلاوے پر فوراً لاہور حاضر ہوگئے اور جماعت کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے کم و بیش 16 سال تک ان کے دست و بازو بنے رہے۔ قاضی حسین احمد ایک انقلابی رہنما تھے انہوں نے جماعت اسلامی کو عوام میں مقبول بنانے کے لیے بہت سے غیر روایتی انقلابی اقدامات کیے جو جماعت کے بعض روایت پسند بزرگوں کو ناگوار بھی گزرے اور انہوں نے جماعت سے اپنی عمر بھر کی وابستگی ختم کردی۔ سید منور حسن اس بحرانی دور میں قاضی صاحب کے ساتھ قدم سے قدم ملائے کھڑے رہے اور جماعت کو اس بحران سے نکالنے میں کامیاب رہے۔ قاضی صاحب نے جب رضا کارانہ طور پر امارت سے سبکدوشی کا فیصلہ کیا اور اگلی مدت کے لیے انتخاب میں حصہ لینے سے معذوری ظاہر کردی تو ارکان جماعت کی نظر انتخاب سید منور حسن پر پڑی اور انہیں امیر جماعت منتخب کرلیا۔ منور صاحب نے امارت کا کا حلف اُٹھاتے وقت جن جذبات کا اظہار کیا وہ ہر آنے والے امیر کے لیے مشعلِ راہ رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان پر ذمے داریوں کا بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے جسے اُٹھانے کے لیے وہ خود کو تیار نہیں کر پارہے تھے لیکن اب جب کہ یہ ذمے داری ان کے سپرد کردی گئی ہے وہ اسے کسی خوف اور دبائو کے بغیر نہایت دیانتداری سے نبھانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔ واقعات شاہد ہیں کہ انہوں نے جو بات حق سمجھی اس پر ڈٹ گئے اور مقتدرہ کی طرف سے کسی ناراضی کی پروا نہ کی۔
سید منور حسن مذہبی جماعتوں خاص طور پر تبلیغی جماعت کے ساتھ اشتراک و تعاون کے خواہاں تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے کئی مرتبہ اپنی تقریروں میں کیا لیکن تبلیغی جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ اس نوعیت کا ہے کہ اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کی راہ ہموار نہ ہوسکی۔ البتہ متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے ناکام تجربے کے بعد وہ سیاسی میدان میں کسی مذہبی و سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد کے قائل نہ تھے۔ ان کا دو ٹوک موقف یہ تھا کہ جماعت اسلامی کو عوام میں اپنی مقبولیت جانچنے کے لیے اپنے دستِ و بازو پر بھروسا کرنا چاہیے اور اپنے انتخابی نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینا چاہیے۔ سید منور حسن نے 1977ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے ملک میں سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے لیکن افسوس یہ انتخابات بھٹو حکومت کی دھاندلی کا شکار ہو کر کالعدم قرار پاگئے اور سید صاحب کو اسمبلی میں جانے کا موقع نہ مل سکا، ورنہ پارلیمنٹ ایک نہایت صاف گو اور منفرد پارلیمانی لیڈر کا تجربہ کرتی۔ انہیں زبان و بیان پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی، وہ میدانِ عمل کے آدمی تھے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے لکھنے لکھانے پر زیادہ توجہ نہ دی اور نہ وہ قلم کے بھی شہسوار ثابت ہوئے۔
راقم الحروف کے ساتھ سید صاحب کے تعلقات کا دورانیہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے۔ ان تعلقات کا آغاز 5 اے ذیلدار پارک اچھرہ (لاہور) سے ہوا جہاں مرکز جماعت بھی تھا اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہائش بھی یہیں مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس ہوتے اور مشرقی و مغربی پاکستان کے ارکان شوریٰ شرکت کرتے تھے۔ سید منور حسن کراچی سے آتے تو رونق لگ جاتی۔ نوجوان سید منور حسن کی دلآویز شخصیت اور شگفتہ مزاجی سب کو اپنی طرف کھینچتی تھی اور ان کے گرد جمگھٹا لگا رہتا تھا۔ ہمارا تعلق اُن دنوں ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ سے تھا۔ یہ تعارف ان سے ذاتی تعلق کا سبب بن گیا جو ہمیشہ قائم رہا۔ منصورہ آباد ہوا تو ہم ایک اخبار سے منسلک ہو کر راولپنڈی آچکے تھے۔ سید منور حسن نے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور پھر امیر جماعت کی حیثیت سے منصورہ میں کم و بیش بیس سال تک قیام کیا۔ وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم رہے۔ راولپنڈی سے لاہور جانا ہوتا اور سید منور حسن منصورہ میں ہوتے تو ان سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔ مزاج میں وہی شگفتگی اور رعنائی تھی، مل کر طبیعت خوش ہوجاتی تھی۔ اِن دنوں سوشل میڈیا پر منصورہ میں ان کی بیٹی کی شادی اور اسے ملنے والے قیمتی تحائف کا قصہ وائرل ہورہا ہے جو انہوں نے بیٹی کی رضامندی سے جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کرادیا تھا کہ یہ تحائف اسے سید منور حسن کی بیٹی کی حیثیت سے نہیں، امیر جماعت کی بیٹی کی حیثیت سے ملے تھے اور ان پر جماعت اسلامی کا حق تھا۔ وہ واقعی ایسے ہی تھے۔ مال و دولت، جاہ و منصب اور شہرت و ناموری سب سے بے نیاز، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے طالب!
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا