مربی، مفکر، مجاہد، قائد… منور

281

یہ ناشتہ تو قیامت ہوگیا۔ اس پر طرہ ہمارے انڈین ساتھی ہارون نگرامی کے طنز پرمنور حسن صاحب کا سیدھا جواب… ہارون صاحب نے کہا کہ پاکستان تو سنبھلتا نہیں دلی کے لال قلعے پر جھنڈا گاڑنے کے دعوے کرتے ہو۔ اس پر منور حسن نے کہا ’’فکرہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ یعنی ہر ایک کی فکر اس کی ہمت کے مطابق ہے۔ہم تو اپنی زیز واپس لینے کی بات کررہے تھے ،آپ کو کیا خوف… اس پر قہقہہ پڑا لیکن اس کی بازگشت بہت دور تک سنی گئی اور بالآخر سید مودودیؒ کے فرزند عمر فاروق مودودی اور اطہر ہاشمی پر کلہاڑی چلائی گئی۔ ( الگ موضوع ہے) اس کے بعد ہمارے اردو نیوزپہنچنے پر کیا جانے والا تبصرہ ’’آج اردو نیوز منصورہ II ہوگیا‘‘ بروئے کار آیا اور زعیم الکبیر کہہ کر نصیر ہاشمی اور ان کا معاون نائب امیر قرار دے کر ہمیں گھر جانے کا حکم ہوا کس طرح ،دلوں کا معاملہ ہے۔ سید صاحب کو خبر ہوئی گھر پر فون آیا کیا معاملات ہیں۔ ہم نے بتایا کہ گھر بیٹھنے کو کہا ہے۔ کہنے لگے آپ گھر بیٹھیں اور انتظار کریں خود استعفیٰ نہ دیں۔ آپ کے لیے ہمارے پاس کام موجود ہے پھر چالیس دن بعد فراغت کا خط ملا جب خط لینے گئے تو اکائونٹس والے نے ایک پلندہ فائل میں سے نکال کر پکڑایا جس کی وجہ سے فائل کا پیٹ خاصا پھولا ہوا تھا۔ اس پلندے میں اپنوں کے شکایت نامے اور منور صاحب کے کئی خطوط تھے تاہم ان میں سے کوئی کھولا نہیں گیا تھا۔ ترتیب وار دیکھا تو شکوہ تھا کہ تین خطوط لکھ چکا ہوں کیا قلم کو زنگ لگ گیا ہے۔ سید صاحب کا کیا مقابلہ، ایسی جمی ہوئی تحریر ہوتی تھی۔ ہمیں ایک خط میں لکھا کہ قلم کو مضبوطی سے پکڑو اور کسی سے کہہ کر کاغذ کو بھی بلنے نہ دیا کرو… پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے۔ بات تو سب سمجھ گئے ہوں گے۔
سید منور حسن پر آج کل جتنے لوگ لکھ رہے ہیں وہ سب سید منور صاحب کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے لکھ رہے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سید صاحب کے نام کو یہ لوگ (ہم بھی) اپنی مشہوری کے لیے استعمال کررہے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سید صاحب نے ہر ایک سے ایسا تعلق رکھا تھا کہ وہ ان کے اور اپنے واقعات ہی بیان کرتا ہے۔ یہاں ان کے دوسروں کے ساتھ دو واقعات بھی بیان کرتا چلوں… ہمارے ایک صحافی بیمار ہوئے 9 محرم کو اسپتال گئے میڈی کیئر میں داخل تھے دوپہر کو بتایا گیا کہ فوراً آپریشن ہوگا۔ منور صاحب سجاد میر کے ساتھ اسپتال پہنچے چند لمحوں میں بات سمجھ گئے اور تھوڑی دیر میں آپریشن کے لیے رقم اسپتال کے اکائونٹ میں جمع ہوچکی تھی۔ یہ ہمارے اسپورٹس رپورٹر ظفر اقبال (چیف صاحب) ان کا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن تاحیات اس واقعہ کا تذکرہ کرتے رہے اور منور صاحب کے گرویدہ رہے۔ اسی طرح ایک صاحب سے طائف میں ملاقات ہوئی انہوں نے بتایا کہ میں ایک روز منور حسن کے پیچھے پیچھے فجر کی نماز کے لیے چل رہا تھا۔ قریب آکر کہا کہ منور صاحب اتنی رات کو اکیلے نہ چلا کریں۔ منور صاحب نے گردن گھمائے بغیر کہا کہ میں کبھی اکیلا نہیں ہوتا… میں نے کہا کہ آپ مجھے نہ گنیں میں تو ایم کیو ایم کا ہوں… منور صاحب پھر مسکرائے اور مسجد میں داخل ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ میرے ساتھ ہوتا ہے تو ایم کیو ایم کیا اور اس کے سرپرست کیا…!!
پھر چند ہی دن گزرے ہوں گے کہ مجھ پر (اس نوجوان پر) ایم کیو ایم میں بُرا وقت آگیا۔ دوستوں نے سعودی ویزے کا انتظام کردیا ٹکٹ اور ویزے کے لیے پیسے جمع کررہا تھا۔ کسی نے کہا کہ منور صاحب سے کہو تمہارے تعلقات ہیں۔ میں حیران رہ گیا… ان سے کہوں… لیکن جان پر بنی ہوئی تھی ڈرتے ڈرتے ان کے گھر گیا اور کہا کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے… پیسے واپس کردوں گا۔ منور صاحب نے پوچھا کتنے چاہئیں۔ میں نے ٹکٹ سے دوگنی سے بھی زیادہ رقم بتادی… پچاس ہزار… منور صاحب نے کہا کہ دوپہر میں ادارہ نور حق آجائو… انہوں نے ایک پرچہ دیا اکائونٹس والوں نے رقم دی… میں شکریہ ادا کرنے گیا منور صاحب نے دعائیں دیں اور کہا اللہ تمہاری حفاظت کرے… یہ زندگی اللہ نے اپنے دین کے کام کے لیے دی ہے اس کا خیال رکھنا… یہ بیان کرتے ہوئے اس نے مجھے کہا مظفر بھائی دس سال میں کوئی سو مرتبہ جماعت اسلامی کا یہ احسان اتار چکا ہوں لیکن دل نہیں بھرتا۔ یہ بات اس نے 1999ء میں بتائی تھی اور ہماری اطلاع کے مطابق اب تک یہ احسان اُتار رہا ہے۔ منور صاحب کے انتقال پر ضرور رویا ہوگا… (نام قصداً اور احتیاطاً نہیں لکھا)۔
منور حسن صاحب سے صحافت، سیاست، بین الاقوامی معاملات اور ہر موضوع پر بات ہوتی تھی۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے سوال پوچھتے تھے… ہم کہتے کہ آپ بتائیں!! تو وہ کہتے کہ پوچھا ہم نے ہے اور ہم ہی بتائیں۔ پھر اس حوالے سے مکمل رہنمائی فرماتے۔ جب اردو نیوز سے سبکدوشی ہوئی جسے ایک صاحب نے فارغ لکھا ہے تو منور صاحب کو بتایا کہ معظم علی قادری نے اسلام آباد آنے کا حکم دیا ہے تو کراچی چھوڑ کر وہاں جائوں…؟ منور صاحب نے کہا کہ جی ،جسارت کو آپ کی ضرورت ہے وہ جہاں بلائے آپ چلے جائیں۔ اور ہم چلے گئے… اس موقع پر انہوں نے ایک تبصرہ قاضی صاحب کو ہمارے بارے میں بھیجا تھا بس اسے ساتھ لیے ہم بھی منور صاحب کے پیچھے چلے جائیں گے۔
(جاری ہے)