امکانات کا دائرہ

380

ایک بزرگ صحافی نے ملکی حالات کے پیش نظر اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جگہ کوئی نیا چہرہ آ سکتا ہے۔ مگر اس کا تعلق تحریک انصاف ہی سے ہو گا۔ ٹی وی اینکرز کی نظر میں یہ ایک بڑی خبر ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ جسے بڑی خبر کہا جا رہا ہے وہ تو افواہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ بڑی خبر افواہ کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ سیاست امکانات کے دائرے میں گھومتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تھی تو بہت سے سیاسی مبصرین نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچے جیسی ہے۔ سو اس کے تادیر زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں۔ کوئی بھی سانس اس کا آخری سانس ثابت ہو سکتا ہے۔ اس اثنا میں ہم نے انھی کالموں میں لکھا تھا کہ تحریک انصاف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی طرح اپنی مدت پوری کرے گی۔ مگر اس امکان کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ عمران خان کو یوسف رضا گیلانی بنایا جا سکتا ہے۔ بہت سے سیاسی دانشوروں اور سیاست دانوں نے یہاں تک کہا تھا کہ عمران خان اپنی حکومت توڑ دیں گے یا مستعفی ہو جائیں گے۔ گو یا مخالفین عمران خاں نیازی کے بطن سے جنرل نیازی کی آمد کے منتظر ہیں، ایک سیا ست دان نے چھ ماہ کی مدت کا تعین بھی کر دیا تھا۔ جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کے ارشاد کے مطابق اپوزیشن کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں حکومت اپنی نا اہلی کے بوجھ تلے دب جائے گی۔
سیا ست امکانات کے دائرے میں گھومتی رہتی ہے۔ اسی لیے کسی بھی امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ عام خیال یہی تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت 2020 میں ختم ہو جائے گی مگر بقول شیخ رشید کورونا وائرس عمران خان کے لیے خوش بختی کا پیغام لایا اور یہ درست بھی ہے۔ اگر کورونا وائرس نے ملک کی بچی کھچی معیشت کو تباہ نہ کیا ہوتا۔ تو سال رواں عمران خان کے لیے سال رفتہ گاں بن چکا ہوتا۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر نیا چہرہ آبھی گیا تو کیا کرلے گا۔ زمینی حقائق سانڈ کی طرح بپھر جائیں تو زمین شق ہوجاتی ہے اور خشک سالی ذہنوں کو بھی خشک کردیتی ہے۔ ہم ایک مدت سے انھی کالموں میں کہہ رہے ہیں کہ سیاست دان تاجر بن گئے ہیں۔ سیاست تجارت بن جائے تو حکومت پر بیوپاریوں کا قبضہ ہوجاتا ہے۔ اگر مقتدر طبقہ ملک و قوم کی بہتری چاہتا ہے تو ایوان اقتدار سے سیاست دانوں کو نکال کر سیاسی لوگوں کو آگے لانا ہوگا۔ ایسے سیاسی لوگ جو رضاکارنہ طور پر ملک و قوم کی خدمت سر انجام دیں۔ بعض قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ سیاست دانوں اور سیاسی لوگوں میں کیا فرق ہوتا ہے! سیاست دان موقع شناس ہوتا ہے وہ لمحہ موجود ہی میں جیتا ہے آنے والی نسلوں کے بارے میں نہیں سوچتا مگر سیاسی آدمی معاملہ فہم ہوتا ہے۔ وہ آنے والے وقت کے بارے میں سوچتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو شکوہ ہے کہ اپوزیشن پر جو مقدمات زیر سماعت ہیں ان میں سے 75فی صد تو پرانے ہیں مگر گالیاں مجھے دی جارہی ہیں۔ وزیر اعظم کے پاس آگر کوئی معاملہ فہم ہوتا تو وہ یقینا یہ باور کرانے کی کوشش کرتا کہ عمران خان تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبڑ تو۔ اگر 25مقدمات کا میرٹ پر فیصلہ ہوجاتا تو ملک سیاسی اکھاڑا نہ بنتا۔ عدالت عظمیٰ کو بھی یہی شکایت ہے کہ نیب پہلے لوگوں کو پکڑتی ہے پھر ان پر الزامات لگانے کے لیے شرم نا ک حرکتیں کرتی ہے۔ عدالت عظمیٰ بارہا یہ استفسار کرچکی ہے کہ نیب نے جتنے بھی مقدمات بنائے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک بھی مقدمے کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا بس مختلف قسم کی تاولیں سناتی رہتی ہے۔ کسی نے درست ہی کہا ہے قوم ہجوم بن جائے تو قیادت اس بھیڑ میں گم ہوجاتی ہے۔ عمران خان بیس اوور کا میچ نہیں کھیل رہے ہیں انہیں ایک لمبی سیریز کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ اگلا الیکشن بھی پی ٹی آئی کے نام ہوسکتا ہے۔ سیاست امکانات کا کھیل ہے۔ سو اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ مقتدر قوتیں کسی خاص مقصد کے تحت عمران خان کو دس سال تک حکمرانی کی مسند پر دیکھنا چاہتی ہوں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا قوم دس برس تک زندہ بھی رہے گی۔ مہنگائی اور بے روزگاری کا سونامی کسی بھی وقت قوم کو طوفان نوح سے دوچار کرسکتا ہے۔ پہلے حکمرانوں کے لیے گو گو کے نعرے لگتے تھے اب دفع ہو دفع کا شور برپا ہے۔ تحریک انصا ف کے لیے خوش آئند بات یہی ہے کہ عوام ابھی تک مکمل طور پر عمران خان سے مایوس نہیں ہوئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ انہیں قوم پر مسلط کرنے والے کیا سوچ رہے ہیں۔