ایم کیو ایم… ایک اسکینڈل

1041

ایم کیو ایم لندن کے ڈپلومیٹک ونگ کے سابق سربراہ، رابطہ کمیٹی کے رکن اور الطاف حسین کے قریبی ساتھی محمد انور نے تصدیق کی ہے کہ ایم کیو ایم لندن میں بھارت سے فنڈنگ حاصل کرتی رہی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں نے بھارت سے حاصل ہونے والی تمام رقوم پارٹی کو دیں۔ محمد انور کے بقول بھارتی سفارت کاروں سے ان کی ملاقات ایم کیو ایم لندن کے ایک اور رہنما ندیم نصرت نے کرائی۔ دی نیوز اور جیو کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے یہ ’’انکشاف‘‘ بھی کیا کہ کراچی میں قتل و غارت گری کی ذمے دار ایم کیو ایم ہے۔ انہوں نے کہا کہ الطاف حسین بتاتے تھے کہ کسے قتل کرنا ہے اور کسے جلانا ہے۔ محمد انور نے کہا کہ وہ پاکستان اور برطانیہ کے حکام کو مزید حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ (روزنامہ جنگ کراچی۔ 22 جون 2020)
ایم کیو ایم کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اسکینڈل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم کی ہر چیز اسکینڈل ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ ایم کیو ایم اسکینڈل سے بنی ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم کی پیدائش ’’فطری‘‘ نہیں تھی۔ اسے جنرل ضیا الحق نے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے خلق کیا تھا۔ وہ کراچی میں جماعت اسلامی اور دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانا چاہتے تھے۔ جماعت اسلامی کراچی کے رہنما جنرل ضیا الحق کے شدید ترین ناقد تھے اور پیپلز پارٹی جنرل ضیا الحق کے لیے سیاسی خطرہ تھی۔ جنرل ضیا الحق نے ایم کیو ایم کی تخلیق کے ذریعے اپنے دونوں حریفوں کو دیوار سے لگانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایم کیو ایم کی تخلیق بجائے خود ایک اسکینڈل ہے۔
الطاف حسین کی ’’سیاسی اہلیت‘‘ اتنی تھی کہ وہ بلدیہ کراچی کے کونسلر منتخب ہوجاتے یا زیادہ سے زیادہ کراچی سے صوبائی یا قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوجاتے۔ مگر وہ ایم کیو ایم کے ’’قائد‘‘ بن کر اُبھرے۔ بدقسمتی سے یہ منصب انہیں اپنے لیے کم نظر آیا اور وہ خود کو ’’پیر صاحب‘‘ کہلاتے نظر آئے بلکہ ان کی شبیہ کروٹن کے پتوں پر نظر آنے لگی۔ ایک مسجد کے فرش پر بھی ان کی تصویر کو اُبھرتے دیکھا گیا۔ اس صورتِ حال سے ایسا محسوس ہوا کہ ایک اور مرزا غلام احمد قادیانی کا ظہور ہوا چاہتا ہے مگر خدا کا شکر ایسا نہ ہوسکا ورنہ الطاف حسین لاکھوں مہاجروں کے ایمان کے لیے خطرہ بن جاتے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کا یہ پہلو بجائے خود ایک بہت بڑا اسکینڈل تھا۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست جو بھی تھی اس کی تین سیاسی بنیادیں تھیں۔ کوٹا سسٹم کا خاتمہ، بنگلادیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کی واپسی اور مہاجر ثقافت کا فروغ، کوٹا سسٹم کا خاتمہ شہری سندھ کے دل کی آواز تھی۔ بنگلادیش میں پھنسے ہوئے بہاریوں کی واپسی ایک بہت بڑا پاکستانی اور انسانی مسئلہ تھا۔ ہر ثقافتی گروہ کی طرح مہاجروں کا بھی حق تھا وہ اپنی ثقافت کو فروغ دیں۔ مگر بدقسمتی سے اس دائرے میں الطاف حسین بھٹو بن کر اُبھرے۔ جس طرح بھٹو صاحب نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا مگر انہوں نے صرف نعرے میں روٹی فراہم کی، نعرے میں لوگوں کو کپڑا مہیا کیا اور نعرے ہی میں لوگوں کو مکان بنا کر دیے۔ اسی طرح الطاف حسین نے بھی صرف نعرے میں کوٹا سسٹم ختم کرایا، صرف نعرے میں وہ بہاریوں کو واپس لائے، صرف نعرے میں انہوں نے مہاجروں کی ثقافت کو فروغ دیا۔ بلکہ حد تو یہ ہے کہ آخر آخر انہوں نے ان تینوں اہم معاملات کو اپنے نعروں سے بھی نکال باہر کیا۔ یہ ایم کیو ایم سے وابستہ ایک اور بڑا اسکینڈل ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم مہاجروں کی ثقافت کا فروغ چاہتے تھے۔ مہاجروں کی ثقافت کا ایک ستون مذہب تھا۔ دوسرا ستون تہذیب تھی۔ تیسرا ستون علم تھا۔ چوتھا ستون شعور تھا۔ پانچواں ستون محنت تھی مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے مہاجروں کی ثقافت کے ان تمام ستونوں کو گرا کر مہاجر ثقافت کے نئے ستون تخلیق کیے۔ ان میں سے ایک ستون دہشت گردی تھی۔ دوسرا ستون بھتا خوری تھا۔ تیسرا ستون بوری بند لاشوں کا کلچر تھا۔ چوتھا ستون پرتشدد ہڑتالیں تھیں۔ پانچواں ستون مہاجر کاز سے غداری تھی۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی پوری سیاست ہی اسکینڈل ہے۔
الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے ساتھ ریاست پاکستان کے اہم ترین اداروں کا تعلق بجائے خود ایک بہت بڑا اسکینڈل ہے۔ کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں لسانی سیاست کا علم
بلند کرنے والی شخصیت اور تنظیم کھڑی کی جاسکتی ہے۔ ’’امیرالمومنین‘‘ جنرل ضیا الحق نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست کو فروغ دینے کے لیے کراچی میں مہاجر پشتون فسادات کرائے گئے۔ مہاجروں اور سندھیوں اور مہاجروں اور پنجابیوں یہاں تک کہ مہاجروں اور مہاجروں کے درمیان تصادم کی راہ ہموار کی گئی۔ غوث علی شاہ کے عہد میں ’’مبینہ پٹھان‘‘ چھے گھنٹوں تک ایک ’’مہاجر بستی‘‘ میں قتل عام کرتے رہے اور تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بنے رہے۔ ریاستی ادارے نہ چاہتے تو الطاف حسین ملک سے فرار نہیں ہوسکتے تھے۔ ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاست کے مجرم کو خود ریاست کے اداروں نے ملک سے فرار کرایا۔ الطاف حسین دو دہائیوں تک لندن میں بیٹھ کر کراچی میں قتل و غارت گری کراتے رہے مگر ریاست پاکستان نے کبھی اس حوالے سے حکومت برطانیہ سے احتجاج نہ کیا۔ ایسے جیسے کہ کراچی میں کچھ بھی نہ ہورہا ہو۔ سابق ڈی جی رینجرز سندھ محمد سعید نے اے آر وائی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ گزشتہ 30 سال کے دوران کراچی میں 92 ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ اتنے لوگ تو پاکستان اور بھارت میں ہونے والی تین جنگوں میں بھی ہلاک نہیں ہوئے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گزشتہ 30 سال کے دوران اقتدار میں آنے والے شریف خاندان، بھٹو خاندان اور پوری فوجی اسٹیبلشمنٹ کو چلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہیے۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم عام لوگوں کے گلے کاٹتی رہی کسی جرنیل نے الطاف حسین کی سیاست کا کنکشن نہ کاٹا مگر الطاف حسین نے جرنیلوں کو گالیاں دینی شروع کیں تو الطاف حسین کی سیاست کا کنکشن کاٹ دیا گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ 92 ہزار لوگوں کی موت ’’معمولی بات‘‘ ہے البتہ جرنیلوں کو گالی دینا بہت ہی بڑا ’’قومی جرم‘‘ ہے۔ کاش الطاف حسین نے 1985ء میں جرنیلوں کو گالیاں دے دی ہوتیں۔ ان کی خوفناک، شرمناک اور زہریلی سیاست اُس وقت ختم ہوجاتی۔ آپ غور تو کیجیے ان تمام معاملات میں کتنے بڑے بڑے اور کتنے ہولناک اسکینڈل پوشیدہ ہیں۔
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ امریکی سی آئی اے خود پورا پاکستان دیکھتی ہے مگر کراچی اس نے برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کے حوالے کیا ہوا ہے۔ اسی لیے الطاف حسین دو دہائیوں سے لندن میں مقیم ہیں۔ مگر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ کو دہشت گردوں کی ’’چھینک‘‘ کا بھی پتا چل جاتا ہے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی سیاست نے کراچی میں 92 ہزار انسان مار ڈالے مگر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی کی اطلاع نہ امریکا کو ہوئی نہ برطانیہ کو ہوئی۔ امریکا کے ممتاز دانش ور نوم چومسکی امریکا کو ’’بدمعاش ریاست‘‘ کہتے ہیں مگر کراچی کے سلسلے میں برطانیہ نے بھی گزشتہ 20 سال کے دوران ایک ’’بدمعاش ریاست‘‘ کا کردار ادا کیا ہے۔ امریکا سے احتجاج کرتے ہوئے تو ہمارے حکمرانوں کا دم نکلتا ہے مگر معلوم ہوا کہ ہمارے ’’شیر جرنیل‘‘ اور شیر سیاست دان برطانیہ سے بھی احتجاج نہیں کرتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ’’جرنیل‘‘ ہمارے ’’بھٹوز‘‘ ہمارے ’’شریفین‘‘ اور ہمارے عمران خان صرف قوم کے لیے شیر ہیں امریکا اور برطانیہ کے آگے ان لوگوں کی حیثیت بھیگی بلیوں سے زیادہ نہیں۔
ہر باشعور شخص جانتا تھا کہ الطاف حسین بھارت کے لیے کام کرتے ہیں۔ وہ اپنے دورۂ بھارت میں صاف کہہ چکے تھے کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ ڈالتے۔ اب ان کے ایک ’’رازداں‘‘ نے ساری دنیا کے سامنے اعتراف کرلیا ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم بھارت سے پیسے لیتی تھی۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم برطانیہ سے الطاف حسین کو واپس لائیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم برطانیہ سے کھل کر اس بات پر احتجاج کریں گے، اس نے دو دہائیوں سے ایک بڑے دہشت گرد اور بھارت کے ایجنٹ کو اپنے یہاں پناہ دی ہوئی ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین کو ترک کردیا ہے مگر ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کو اس نے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ حالاں کہ یہ تمام لوگ تین دہائیوں تک الطاف حسین کے جرائم میں برابر کے شریک رہے ہیں۔ الطاف حسین گردن زدنی ہے تو ایم کیو ایم لندن، ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین کے رہنما بھی گردن زدنی ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ مہاجر کبھی بھی مہاجریت کے ’’گڑھے‘‘ سے نہ نکلیں؟ وہ کبھی بھی صرف اسلام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفادار نہ بنیں؟ ایسا ہے تو یہ بھی ایک اسکینڈل ہے۔