قرآن پاک کی تعلیم

369

گزشتہ دنوں ملک کے ایک نامور کالم نگار نے حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں پرائمری تک ناظرہ اور چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک باترجمہ قرآن پاک پڑھانے کے فیصلے پر جس ردعمل اور تنقید کا اظہار کیا ہے وہ ناقابل فہم ہی نہیں بلکہ قابل گرفت بھی ہے کیونکہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ یقین اور عقیدہ ہے کہ قرآن پاک نہ صرف اللہ تعالیٰ کی آخری الہامی کتاب ہے بلکہ یہ کتاب اسلامی تعلیمات اور احکامات کا بنیادی ماخذ بھی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے نازل کیا ہے۔ حکومت کے منظور کردہ اس بل کے متعلق کہنا ہے کہ اس سے جہاں دین اسلام کے عظیم پیغام کو سمجھا جاسکے گا وہاں اس سے سچ، ایمانداری، برداشت، اتحاد و اتفاق سمیت زندگی گزارنے کے پرامن طریقوں کو بھی فروغ ملے گا۔ اس بل کے اغراض و مقاصد کے مطابق قرآنی تعلیم لازمی کرکے ریاست کو آئین کے آرٹیکل 31 (2) پر عملدرآمد میں بھی مدد ملے گی، جس کے تحت ریاست کا اسلامی اور قرآنی تعلیمات کو یقینی بنانا ضروری ہے۔
فاضل کالم نگار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کے لیے قرآن پاک کی تعلیم لازمی کرنے کے حکومتی اقدام کی مخالفت میں اس حد چلے گئے ہیں کہ انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کو بھی نہیں بخشا، قرآنی تعلیم کی مخالفت میں انہیں یہ دلیل گھڑتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آئی کہ ’’شاعر مشرق نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے حاصل کی جب کہ قائداعظم نے بار ایٹ لا لنکنز اِن برطانیہ سے کیا‘‘۔ بقول متذکرہ کالم نگار ’’اپنی اپنی ڈگریاں حاصل کرنے سے پہلے نہ مفکرِ مسلمانانِ ہند اور نہ ہی معمارِ پاکستان پہ ایسی کوئی شرط عائد ہوئی کہ وہ قرآن پاک کی ناظرہ اور ترجمے کی مہارت حاصل کریں‘‘۔ حیرت ہے کہ اسلامی تعلیمات عام ہونے کے بغض میں انہیں یہ دلیل پیش کرتے ہوئے ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ ان دو عظیم ہستیوں نے غلامی کے کن حالات اور کس دور میں کس نظام تعلیم کے تحت تعلیم حاصل کی تھی، نیز جرمنی اور برطانیہ جیسے غیر مسلم ممالک میں ڈاکٹریٹ جیسی اعلیٰ تعلیم اور قرآن پاک ناظرہ یا باترجمہ پڑھنے کے درمیان کون سی قدر مشترک ہے جسے ایک دوسرے کے ساتھ غیر ضروری طور پر خلط ملط کیا جارہا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں ’’مذہب سے لگائو کس معاشرے میں نہیں ہے؟ ہمارا مسلم معاشرہ ہے، مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے۔ ایک ہزار سال سے اسلام کی شناخت اور پہچان برصغیر میں قائم رہی ہے۔ تاقیامت یہ مسلمان معاشرہ رہے گا‘‘۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ اسلامی معاشرہ قرآنی
تعلیمات کے بغیر ایک ہزار سال تک برقرار اور قائم رہ سکتا تھا کیا یہ دلیل دیتے ہوئے انہیں اسپین اور روسی تسلط کے تحت رہنے والی ان وسطی ایشیائی ریاستوں کی حالت یاد نہیں رہی جو کبھی اسلام کے مراکز ہوا کرتے تھے اور جہاں ابن رشد، ابن عربی، امام بخاری اور امام ترمذی جیسے جید محدثین اور خادمین اسلام پیدا ہوئے لیکن جب ان ریاستوں میں اسلامی تعلیمات کا سلسلہ رک گیا تو تب پھر ان کا کیا حشر ہوا۔ فاضل کالم نگار آگے فرماتے ہیں کہ ’’جہاں سے شاعرِ مشرق اور معمارِ پاکستان فارغ التحصیل ہوئے وہاں اگر یہ کہا جائے کہ ڈگریاں تب ملیں گی جب آپ انجیل سے چند اوراق پڑھیں گے اور اُن کا مفہوم بیان کر سکیں گے تو قہقہہ ایسا اُٹھے کہ اُس کی گونج ساتویں آسمان تک پہنچ جائے، لیکن یہاں بغیر کسی چوں و چرا کے چھ سات یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کا اجلاس منعقد کیا جاتا ہے اور فیصلہ ہوتا ہے کہ کالج اور یونیورسٹی کی ڈگریاں تب تک نہیں دی جائیں گی جب تک طالب علم قرآن پاک کو بطور مضمون اختیار نہیں کریں گے‘‘۔ فاضل کالم نگار نے اپنی کم علمی یا پھر اپنی کج فہمی کی بنیاد پر انجیل کے چند اوراق پڑھنے اور قرآن پاک ناظرہ اور باترجمہ پڑھنے کے فرق کو نہ سمجھ کر اور ان دونوں باتوں کو آپس میں گڈمڈ کرکے قرآنی تعلیمات کو نصاب میں شامل کرنے کے خلاف جو بھونڈی مثال دی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ان کی ذہنی حالت پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ موصوف آگے فرماتے ہیں کہ مذہبی عقیدہ اپنی جگہ ہے تعلیم کے تقاضوں کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مذہبی عقیدہ ہی دراصل کسی بھی اسلامی معاشرے میں تعلیمی نظام کی بنیاد ہے اگر کوئی ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے لامحالہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
واضح رہے کہ زیر بحث موضوع فی الحال اگرچہ محض ایک قرارداد ہے جس کی حیثیت صرف سفارش کی ہے لیکن چونکہ یہ قرارداد درست سمت میں ایک درست قدم ہے اس لیے اس کی منظوری پر تمام ارکان اسمبلی مبارکباد کے مستحق ہیں جس کے نتیجے میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی منتخب اسمبلی کی جانب سے قرآن پاک سے عقیدت اور محبت کا اظہار ہے جس سے پاکستان کی نظریاتی شناخت ایک بار پھر جمہوری انداز میں سامنے آئی ہے۔ اصل میں جن لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے چڑ ہے ان سے یہ خالی خولی قرارداد بھی ہضم نہیں ہو رہی ہے۔ دراصل انہیں اس بات کا غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں اگر اس قرارداد پر عمل درآمد ہوگیا تو پاکستان کو ایک مادر پدرآزاد سیکولر ریاست بنانے کی ان کی خواہشات پر اوس پڑ جائے گی لہٰذا یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ لٹھ لیکر بیس کروڑ سے زائد پاکستانیوں کے ایمان اور عقیدے سے جڑے اس مسئلے کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔