برطانیہ ایشیائی کورونا وائرس کے شدید نرغے میں

292

برطانیہ میں جہاں کورونا وائرس سے 43ہزار 9سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اُن علاقوں میں جہاں ایشیائیوں کی بڑی تعداد آباد ہے وبا کی نئی لہر اٹھی ہے جس نے لیسٹر کے ساتھ بریڈ فورڈ، بارنسلے اور راچڈیل کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ لیسٹر میں صورت حال اتنی تشویش ناک ہے کہ یہاں وزیر صحت نے اس ہفتہ سے سخت لاک ڈاون نافذ کر دیا ہے۔ جب سے برطانیہ میں کورونا وائرس پھیلا ہے اس پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ اس وبا کے ایشیائی اور سیاہ فام افراد سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ یہ صورت حال اس قدر تشویش ناک ہے کہ اس کے اسباب تلاش کرنے کے لیے ایک کمیشن کے قیام پر زور دیا جارہا ہے۔ عام طور پر یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ایشیائیوں اور سیاہ فام افراد میں کورونا وائرس کے پھیلائو کی وجہ ان برادریوں میں صحت کی سہولتوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ لیسٹر کی آدھی آبادی ایشیائیوں اور سیاہ فام افراد پر مشتمل ہے۔ اس آبادی میں اٹھارہ فی صد ایشیائی کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ بریڈ فورڈ، اولڈھم اور بلیک برن میں یہ مسئلہ اور سنگین صورت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ان علاقوں میں نسلی اقلیتوں کی تعداد برطانیہ کے دوسرے علاقوں کے مقابلہ میں بیس سے تیس فی صد زیادہ ہے۔ طبی سہولتوں کے فقدان کے علاوہ ایک مسئلہ یہ بھی ہے ان علاقوں میں ایشیائی اور سیاہ فام افراد میں بے روزگاری دوسری آبادی کے مقابلہ میں دوگنی اور تین گنی زیادہ ہے۔ یوں یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ ایشیائیوں اور سیاہ فام افراد میں تیزی سے کورونا وائرس پھیلنے کی اصل وجہ نسل پرستی ہے۔
کورونا وائرس سے نجات کے بعد وزیر اعظم بورس جانسن کو سب سے سنگین اسی مسئلہ کا سامنا کرنا پڑے گا، کیا اصل وجوہات ہیں برطانیہ میں ایشیائی اور سیاہ فام افراد کورونا وائرس کی مصیبت میں اس بری طرح سے گرفتار ہوئے۔ اسی کے ساتھ وزیر اعظم بورس جانسن کو اس سنگین الزام کا بھی سامنا کرنا پڑے گا کہ کورونا وائرس کے شروع میں حکومت نے اس وبا کو روکنے کے لیے لاک ڈاون میں تاخیر کر کے شدید غلطی کی۔ سائنس دانوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ اگر لاک ڈاون ایک ہفتہ پہلے نافذ کر دیا جاتا تو اموات کی تعداد آدھی ہوتی اور یہ تعداد 41ہزار تک نہ پہنچتی۔ ان سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ شروع میں وبا میں ہر تیسرے اور چوتھے دن تین گنا اور چار گنا اضافہ ہورہا تھا اور دراصل یہی وقت تھا جب کہ لاک ڈائوں نافذ کیا جانا چاہیے تھا۔ کورونا وائرس پر کڑی نگاہ رکھنے والے امپیریل کالج کے سائنس دانوں کی ٹیم نے 16مارچ کو چھ روز پہلے، بھر پور طریقہ سے لاک ڈاون کے نفاذ کی سفارش کی تھی جسے وزیر اعظم بورس جانسن نے یکسر مسترد کردیا۔ سائنس دانوں کی اکثریت کی رائے ہے کہ اگر وبا کے پھیلتے ہی لاک ڈائوں نافذ کر دیا جاتا تو مارچ کے پہلے دو ہفتوں میں کورونا کے کیسز ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہ ہوتے اور کل اموات بیس ہزار سے زیادہ نہ ہوتیں۔ لاک ڈائون نافذ کرنے میں تاخیر کے فیصلہ کے پیچھے مقصد دراصل برطانوی معیشت کو تباہی سے بچانا تھا لیکن اس کے باوجود معیشت کو نہ بچایا جاسکا اور اموات پر بھی قابو نہ پایا جا سکا۔ کورونا وائرس پھیلنے کے فوراً بعد ایک ماہ میں برطانیہ کی مجموعی قومی پیداوار میں 24فی صد کمی ہوئی۔ اپریل 2020 میں کورونا کی وجہ سے 15ہزار تجارتی ادارے ٹھپ پڑ گئے۔
بورس جانسن کو اس سنگین الزام کا بھی سامنا کرنا پڑے گا کہ انہوں نے اس وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے پہلے سے کوئی تیاری نہیں کی تھی اور نہ کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع کی تھی جس کی وجہ سے پہلے دو روز میں 2 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور نتیجہ یہ کہ برطانیہ میں کورونا وبا سے اموات پورے یورپ میں سب سے زیادہ ہوئیں۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ برطانوی کابینہ کے وزیروں کی بڑی تعداد موجودہ حالات سے مایوس ہو گئی ہے۔ ان حالات میں سب سے زیادہ خوف کورونا وائرس کے نئی لہر کے بارے میں ہے۔ جہاں تک بورس جانسن کا تعلق ہے ان کو چونکہ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے اس لیے انہیں اقتدار سے محروم ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن کورونا کی وجہ سے معیشت کی تباہی کا شدید خطرہ ہے جس کے سنبھلنے میں برسوں لگ جائیں گے اور ملک اس بری طرح سے مقروض ہو جائے گا کہ قرض اتارتے اتارتے ممکن ہے کئی نسلیں لگ جائیں بلا شبہ ان مصائب کا زیادہ تر بوجھ ملک کے ایشیائیوں اور سیاہ فام افراد کو برداشت کرنا پڑے گا۔