گزشتہ مالی سال 2019-20 کے جاتے جاتے حکومت نے اپنی سرتوڑ کوششوں اور اتحادی جماعتوں سے وعدے وعید کرتے ہوئے آنے والے مالی سال کے لیے اپوزیشن کے شور شرابے اور احتجاج کے باوجود قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ منظور کرالیا جس میں حکومتی بنچوں کو 160 اور اپوزیشن کو 119 ووٹ ملے۔ اس کامیابی پر حکومت کی خوشی قابل دید ہے اپنوں نے اپوزیشن جماعتوں پر ایک سے بڑھ کر ایک جملے کیے اور الزامات کی بارش کی لیکن کیا اس بجٹ کی منظوری سے وفاقی حکومت پاکستان کے عوام کو کچھ دے سکی جو اس سے دو دن پہلے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوش ربا اضافے کے صدمے سے دوچار تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بجٹ اور فنانس بل کی منظوری کے ساتھ کچھ اشیا میں ٹیکس کا جو اضافہ کیا گیا تھا اس میں ترمیم کرکے ٹیکس میں کمی کردی گئی ہے لیکن ان تمام کا تعلق عوام کی اشیائے ضرورت سے نہیں ہے۔ مثلاً انرجی ڈرنکس کی ڈیوٹی میں اضافہ کرکے دوبارہ 13 فی صد کردیا گیا ہے، درآمدی سگریٹ اور سگار پر ڈیوٹی کم کردی گئی ہے، سیمنٹ پر فی کلو گرام ایکسائز ڈیوٹی 2 روپے سے کم کرکے ڈیڑھ روپے کردی گئی ہے۔ لیکن پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھا کر 17 فی صد کردیا گیا ہے اور پٹرولیم لیوی میں 300 فی صد اضافے کرکے 30 روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے اس میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔
یہ سب جانتے ہیں کہ کوویڈ 19 کے باعث دنیا بھر کے تمام ممالک کی طرح پاکستانی معیشت بھی شدید سست روی کا شکار ہے۔ مختلف مالیاتی عالمی ادارے پاکستانی معیشت میں مزید گراوٹ، سرمایہ کاری میں کمی اور بے روزگاری میں اضافے کے تخمینے لگارہے ہیں اور یہ سلسلہ جلد ختم ہونے والا نہیں بلکہ 2021ء تک جاری رہے گا۔ ایسے میں معیشت میں حرکت پیدا کرنے اور روزگار کے مواقعے بڑھانے میں حکومت کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ جس میں سب سے اہم عنصر پیداواری اخراجات ہیں، جدید معاشی نظریات کے مطابق یہ پیداواری اخراجات ہی ہیں جن کے ذریعے حکومت نئے نئے منصوبے اور پرانے منصوبوں میں اضافہ کرتی ہے جن میں سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی توسیع اور مرمت، سڑکوں، ہائی ویز اور فلائی اوورز کی تعمیر، صاف پانی کی فراہمی اور سیوریج کے منصوبے شامل ہوتے ہیں۔ اس سے ایک طرف لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور دوسری طرف کارخانے اور فیکٹریاں چلنا شروع ہوجاتی ہیں اور معیشت کا پہیہ حرکت میں آتا ہے۔ پاکستان کے وفاقی بجٹ جس کا حجم 7137 ارب روپے کا ہے، ترقیاتی اور پیداواری اخراجات کے لیے صرف 650 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ عوام کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئے گی۔ گزشتہ چند ماہ میں پاکستانی معیشت میں ایک نیا فیکٹر جو سامنے آیا ہے وہ مختلف مافیا اور پریشر گروپس ہیں جو اتنے طاقتور اور بااثر ہیں کہ پوری حکومت کی مشینری اُن کے سامنے بے بس ہے پہلے شوگر مافیا اور سیمنٹ مافیا کا نام لیا جاتا تھا اب ان میں آٹو موبائل مافیا، پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیوں کا مافیا پاور جنریشن کمپنیز کا مافیا اور اسپتال مافیا بھی شامل ہیں۔ یہ آٹو موبائل مافیا ہے جو ایک طرف غیر معیاری کاریں بناتے ہیں اور دوسری طرف مزید کار سازی کے اداروں کو ملک میں آنے نہیں دیتے اور کار امپورٹ کو بھی روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پٹرولیم مارکیٹنگ کمپنیاں اتنی بااثر ہیں جو ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہونے پر قلت پیدا کردیتی ہیں اور پھر اندرون خانہ سازباز کرکے وقت سے پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں 30 فی صد تک اضافہ کردیتی ہیں اور حکومتی وزرا یہ کہتے رہ جاتے ہیں کہ ہمیں تو اس اضافے کا علم ہی نہیں۔ پاور جنریشن کمپنیوں نے گزشتہ حکومتوں کے ساتھ مل کر ایسے خوفناک معاہدے کیے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان اور امور خزانہ کے مشیر حفیظ شیخ کو یہ کہنا پڑا ہے کہ پاور سیکٹر ملک کے لیے بہت بڑا عذاب ہے جب کہ حکومت نے 3300 ارب کی سبسڈی اس سیکٹر کو دی ہے اور بیرونی قرضوں میں 2500 ارب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود بجلی کے نرخ اس خطے کے دوسرے ممالک سے زیادہ ہیں اور کارخانوں اور فیکٹریوں میں پیداواری لاگت بہت بڑھ گئی ہے۔ اس طرح گزشتہ 21 ماہ کے دوران آٹے کی قیمتوں میں 65 فی صد اضافہ ہوگیا ہے جب کہ چینی کی قیمت 80 روپے فی کلو سے کم نہیں ہوسکی ہے۔
اس وقت عوام کی بھلائی کا سب سے اہم کام جو حکومت کو کرنا ہے وہ یہ کہ یہ طاقتور مافیاز جو لوگوں کی گردنوں پر سوار ہیں اُن سے عوام کو نجات دلائے یہ عوام اور ملکی معیشت دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔