کے الیکٹرک، ملک دشمنوں سے زیادہ خطرناک !

487

کراچی میں بجلی کا بحران گرمی کی شدت کا مقابلہ کرتے ہوئے جاری ہے۔ ’’کے الیکٹرک‘‘ دنیا کا شاید واحد ادارہ ہے جو گرمی ہی نہیں سردیوں کے موسم میں بھی اپنے صارفین کو بلاتعطل بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ کے الیکٹرک کو اس کی تمام خامیوں اور خرابیوں کے باوجود صرف کراچی ہی میں بدستور چلایا جارہا ہے۔ جس کی وجہ اس کے صارفین یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’کراچی ایک ایسا شہر ہے جس کو مفاد پرست عناصر، حکمرانوں اور جماعت اسلامی پاکستان کے سوا تمام سیاسی جماعتیں صرف‘ سونے کی چڑیا سمجھتی ہیں‘‘۔ جہاں سے مختلف ایشوز کے نام پر بھی مفادات اور ذاتی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو درپیش مسائل سے غیر مقامیوں کی لاکھوں پر مشتمل تعداد کو کوئی دلچسپی نہیں، وہ تو اسے ایک عارضی قیام گاہ سمجھتے ہیں اور اس سے فائدے اٹھاکر جب دل چاہا اپنے آبائی علاقے کوچ کر جاتے ہیں۔ وہ اس شہر سے صرف اپنی ضروریات کے تحت دلچسپی رکھتے ہیں اور اب میرے اس شہر پر غیر مقامیوں کا غلبہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ غیر مقامی لوگ کبھی بھی کراچی کے مفادات کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گے بلکہ یہاں کے مسائل پر آنکھیں بند کیے رہیں گے۔
ایک کنزیومر ایسوسی ایشن ہے، یہ جب سے قائم ہوئی اس وقت سے صارفین کے مسائل بڑھ گئے ہیں مگر اس کے کرتا دھرتا روز بروز خوشحال ہورہے ہیں۔ اس ایوسی ایشن کی نظر میں بجلی کے صارفین کو تو ’’صارفین‘‘ ہی نہیں ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ اس نے ’’کے الیکٹرک‘‘ کے خلاف ایک بیان تک دینا گوارہ نہیں کیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں بقول شاعر
’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا‘‘
عوام تو صارفین کے مسائل کے نام پر اپنی دکانیں چلانے والے ایسے ستاروں کے ٹوٹ جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
کے الیکٹرک کے جاری رویے پر میں ’’فیس بک‘‘ پر اپنی ایک پوسٹ کے ذریعے لوگوں کے تاثرات معلوم کیے۔ میں نے فیس بک پر سوال کیا کہ: ’’پورے ملک میں صرف کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی ’کے ای ایس سی‘ کی کیوں نج کاری کی گئی تھی؟ یہ سازش نہیں تو پھر کیا تھی؟ کراچی آخر کب تک اس عذاب کو برداشت کرے گا؟‘‘
اس پوسٹ کو 85 افراد نے شیئر کیا جبکہ 28 نے اس پر دل کھول کر تبصرے کیے۔ جن لوگوں نے یہ پوسٹ شیئر کی وہاں سے بھی کئی لوگوں نے اسے آگے بڑھایا اور متعدد نے اس کو لائیک کیا اسے کا مقصد کے الیکٹرک کے روئیے کے خلاف نفرت کا اظہار ہے۔ مگر حکمران اور کے الیکٹرک کی انتظامیہ یہ بات سمجھنے سے کیوں قاصر ہے؟ یہ بڑا سوال ہے۔
کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای ایس سی) 1913 کو برٹش دور حکومت میں قائم ہونے والے وہ کمپنی جسے قیام پاکستان کے بعد حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا 2005 تک یعنی 53 سال تک کراچی کے شہریوں کی شاندار خدمت کی اس دوران 6 پیسے تا ایک روپے 50 پیسے فی یونٹ رہائشی صارفین سے اور زیادہ سے زیادہ 5 روپے فی یونٹ بجلی کا ٹیرف ہوا کرتا تھا۔ موجودہ کے الیکٹرک کے مقابلے میں کے ای ایس سی کا نظام لاکھ درجے بہتر تھا اس وقت مقامی فالٹس کی شکایات تھی مگر ہر چار گھنٹے بعد دو دو گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ کے ای ایس سی کی نج کاری اس لیے کی گئی تھی کہ اس کا نظام بہتر بنایا جاسکے مگر اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کے جو خطرناک اور تکلیف دہ نتائج برآمد ہوئے اور ہورہے ہیں وہ نج کاری کے مقاصد کے برعکس ہیں۔ میرا یہ سوال اب بھی موجود ہے کہ ’’آخر پورے ملک میں صرف کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کی پرائیوٹائزیشن کیوں کی گئی؟‘‘ اور اسے نجی شعبے کے حوالے کرنے کے اصل مقاصد حاصل نہیں ہوئی تو حکومت کیوں اسے دوبارہ قومی تحویل میں نہیں لے پارہی؟ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا)، کے الیکٹرک کا احتساب کرنے والا ادارہ مگر عوام کو تو اس ادارے کے قیام پر بھی سوال ہے۔ نیپرا وہ ادارہ ہے جس کے چیئرمین نئے سیکرٹری پاور کو خوش امدید کہتے ہوئے انہیں نیپرا کا نشان پیش کرتے ہیں۔ مطلب حکومت کی جس اتھارٹی کو نیپرا کے خلاف کسی بھی شکایت پر کارروائی کرنا یا جواب طلب کرنا ہے وہ تو نیپرا کے چیئرمین کی چاپلوسی کو قبول کرچکے ہیں، بھلا وہ کس طرح نیپرا کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتے ہیں۔ ہمارے پورے ملک کے نظام کو ایسے ہی روئیوں نے تباہ و برباد کردیا ہے۔ کے الیکٹرک کو من مانی کرنے کی اجازت بھی ان ہی خلاف اصول و ضوابط اقدامات سے حاصل ہوئی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نیپرا کا اصل ہدف کے الیکٹرک کو معاہدے کے مطابق چلانا ہے مگر نیپرا یہ کام کرنے میں بھی ناکام ہے۔ ملک کے دیگر شہروں کو بجلی فراہم کرنے والے دیگر ادارے حیسکو، کیسکو، فیسکو وغیرہ تاحال سرکار کے کنٹرول میں ہیں ان کا احتساب تو متعلقہ ڈپٹی کمشنر بھی کرسکتا ہے اور کرتا ہوگا مگر کے الیکٹرک کے خلاف تو صوبائی حکومت بھی کسی قسم کی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں رکھتی حالانکہ 18 ویں ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر کے الیکٹرک اپنا نیٹ ورک بھی کنٹرول نہیں کرسکتی لیکن آئین اور قانون پر تو وہ عمل کرتا ہے جو اس کی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں تو آئین اور قانون کا استعمال بھی محض مفادات کو سامنے رکھ کر کیا جاتا ہے۔ بہرحال اگر ملک کے سب سے بڑے شہر کو کے الیکٹرک سے نجات نہیں دلائی تو وہ یہ پورے ملک اور قوم کے لیے ملک دشمنوں سے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے، کیونکہ یہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے اور 14 سو میل رقبے پر پہلے کراچی کے بجلی کا واحد ذمے دار ادارہ ہے جو مسلسل اپنی ذمے داریاں قانون اور معاہدے کے مطابق پوری کرنے میں ناکام ہے۔ اس لیے وزیراعظم عمران خان کو اس کے بارے میں فوری ہنگامی فیصلے نہیں اقدامات کرنے ہوںگے۔