ایثار و محبت کی لازوال داستان

654

یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب بھٹو صاحب کے خلاف الیکشن میں دھاندلی پر 1977 میں پی این اے کی ملک گیر تحریک چل رہی تھی اسی دوران ہمیں فیصل آباد جانا پڑ گیا اور چند ماہ وہاں قیام رہا۔ ابھی ضیاء الحق کا مارشل لا نہیں لگا تھا۔ 5 جولائی 1977 کی شام ہم کچہری بازار کے جاوید ہوٹل میں چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ اچانک ہوٹل کے TV پر آواز گونجی۔ میرے عزیز ہم وطنوں۔۔۔ یہ مارشل لا سے متعلق ضیاء الحق کی پہلی تقریر تھی۔ پھر کیا تھا مارشل لا لگتے ہی ساری صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی۔ فیصل آباد میں قیام کے دوران ہماری بہت سے رہنمائوں اور مقامی قیادت سے ملاقاتیں رہیں۔ جن میں بھائی حافظ سلمان بٹ، ظفر جمال بلوچ اور طفیل احمد ضیاء (امیر فیصل آباد) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ضیاء الحق کے وعدے کے مطابق 90 دن کے اندر الیکشن کرانے کی تیاریاں جاری تھیں۔ سیاسی جلسے شروع ہوچکے تھے۔ بھٹو صاحب جیل میں تھے۔ اسی دوران دھوبی گھاٹ جو اب اقبال پارک کہلاتا ہے۔ پی پی پی نے جلسہ کیا جس سے بے نظیر اور نصرت بھٹو نے خطاب کیا ہم بھی تماشا دیکھنے پہنچ گئے۔ دوسری طرف پی این اے کی الیکشن مہم بھی شروع ہوگئی۔ کئی لوگوں نے جو ہمیں جامعہ کراچی کے حوالے سے جانتے تھے۔ ان جلسوں میں خطاب کے لیے دعوت دی۔ ظاہر ہے کافی پزیرائی ہوئی کیونکہ وہاں کے جلسوں اور تقریروں کے انداز میں اور ہمارے جامعہ کراچی کے انداز میں کافی فرق تھا۔ جس کو لوگوں نے بہت سراہا۔ کیونکہ یہ ان کے لیے بالکل ہی نیا تجربہ تھا۔ خیر اس طرح فیصل آباد کے سیاسی حلقوں میں ہماری کافی مشہوری ہوگئی۔۔۔
اسی دوران ایک دن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ہم اپنی رہائش گاہ پر تھے کہ اچانک نوجوانوں کا ایک گروپ پہنچ گیا۔ سلام دعا کے بعد تعارف سے پتا چلا کہ یہ پنجاب میڈیکل کالج کے طلبہ ہیں۔ جو نیانیا کھلا تھا اور اس کی کلاسیں بھی زرعی یونیورسٹی ہی میں ہورہی تھیں۔ اس طلبہ گروپ کو ایک بہت ہی خوبصورت جوان جس کا نام افتخار تھا۔ لیڈ کررہا تھا۔ آنکھوں میں مستقبل کے خوبصورت خوابوں کی چمک، ہونٹوں پر ہر دم کھیلتی مسکراہٹ، سرخی مائل گوری رنگت اور چہرے سے جھلکتی شرارتی ذہانت۔ ہم جو پہلے ہی حسن و عشق کے مارے تھے دیکھتے ہی دل سے گرویدہ ہوگئے۔۔۔ اللہُ الجمیل و یحبُ الجمال۔ اللہ تعالیٰ خود بہت خوبصورت اور حسین ہے اور حسن و جمال کو پسند کرتا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن۔۔۔ ہماری محبت اور دوستی قائم ہے۔ اب جبکہ افتخار اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ہمارا تعلق ان کے اہل و عیال اور دیگر رشتہ داروں سے قائم و دائم ہے۔
خیر افتخار نے کہا کہ اس نئے نویلے کالج میں وہ پہلا بیج ہیں اور تین چاردن میں یہاں طلبہ یونین کے پہلے الیکشن ہونے والے ہیں۔ اور انہیں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے الیکشن میں کھڑا کیا گیا ہے۔ اور اس پینل کے صدارتی امیدوار افتخار صاحب ہیں۔ پینل کے دیگر لوگوں کا بھی تعارف کرایا گیا۔ ہم نے کہا کہ ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں اور آپ لوگوں نے کیوں زحمت کی ہے۔ کہنے لگے یہ ہمارا الیکشن کا پہلا تجربہ ہے اور ہمارے مخالفین کافی مضبوط ہیں۔ اور ہمارے ہارنے کے پورے پورے چانسز ہیں۔ ہمیں آپ کا پتا چلا تو ہم آپ سے رہنمائی لینے آئے ہیں۔۔۔ کیونکہ آپ کو جامعہ کراچی جیسے بڑے اور عظیم ادارے کا تجربہ ہے ان کے ان تعریفی کلمات کے بعد ہم پھولے نہیں سمارہے تھے کی سارے جہاں میں دھوم ہماری جامعہ کی ہے۔
آمدم بر سر مطلب۔ ہم نے عرض کیا کہ بھائیوں آپ کی ساری باتیں سر آنکھوں پر۔ مگر ہم پنجاب کی سیاست اور ماحول سے قطعی نابلد ہیں۔ بلکہ صفر بٹا صفر ہیں۔ لیکن انہوں نے ٹلنے کا نام ہی نہ لیا اور کہا کہ ہم بہت امید لیکر آئے ہیں۔ بس وہ ہمارے پیروں کو ہاتھ لگانے ہی والے تھے کہ ہمیں راضی ہونا پڑا۔ کیونکہ ہمارا پیری مریدی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ خیر ہم نے کہا کہ کل آپ لوگ ہمیں اپنے کالج کی سیر کرائیں تاکہ ہم خود بنفس نفیس زمینی حقائق کا جائزہ لے سکیں۔ غرض دوسرے دن ہم نے کالج کا دورہ کیا اور سب لوگ شام کو ہمارے غریب خانے پر دوبارہ جمع ہوگئے۔
سب سے پہلے تو ہم نے ان کو ایک بہت ہی اچھا اور قابل عمل منشور بنا کر دیا اور پینل کے لوگوں کو تقاریر کی تربیت دی۔ ساتھ ہی ہم نے ان سے مخالفین کی خامیاں اور کمزوریاں معلوم کیں اور ان معلومات کی بنیاد پر سوالنامے کے انداز میں ایک پمفلٹ بناکر دیا۔ لہٰذا دوسرے دن وہ منشور اور پمفلٹ ایک ساتھ کالج میں تقسیم ہوئے۔ جس سے ایک بھونچال سا آگیا۔ مخالفین نہ صرف منہ چھپاتے رہے بلکہ صفائیاں بھی پیش کرتے رہے۔۔۔
شام کو دوبارہ سارے لوگ حسب پروگرام ہمارے پاس جمع ہوگئے۔ ہم نے سارے دن کی رپورٹ لی اور کہا کہ جو پمفلٹ مخالفین کے بارے میں تقسیم ہوا ہے۔ اب یقینا مخالفین بھی اس کا جواب دیں گے۔ لہٰذا آپ ہمیں بتائیں کہ ایک ایک نکتے پر مخالفین کا جواب کیا ہوگا۔ ہم نے مخالفین کے مفروضہ جوابات کو لکھ لیا اور اس کی روشنی میں ایک اور پمفلٹ بنایا جو مخالفین کے پمفلٹ کا جواب الجواب تھا۔
اب تیسرے دن الیکشن کی صبح حسب توقع مخالفین اپنا پمفلٹ بانٹ رہے تھے اور مزے کی بات کہ ساتھ ہی ہمارا جوابی پمفلٹ بھی تقسیم ہورہا تھا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے ہم نے ان کے پمفلٹ کو سامنے رکھ کر اپنا پمفلٹ بنایا ہے۔ یہاں تک کہ مخالفین کو کہنا پڑا کہ شاید ہمارا پمفلٹ پرنٹنگ پریس سے لیک آوٹ ہو گیا ہے۔ ظاہر ہے پانسہ پلٹ چکا تھا اور مزید جواب دینے کا موقع نہ تھا۔ پولنگ شروع ہوچکی تھی۔۔۔
مخالفین کے کانوں میں ہماری موجودگی کی بھنک پڑ چکی تھی۔ لہٰذا مخالفین پرنسپل کے پاس شکایت لیکر گئے کہ ان کے امیر کراچی سے آئے ہیں اور الیکشن میں مداخلت کررہے ہیں۔ چونکہ دیر ہوچکی تھی اس لیے پرنسپل نے بھی کوئی نوٹس نہ لیا اور پولنگ جاری رہی۔ شام 5 بجے پولنگ ختم ہوئی اور ایک گھنٹے کے اندر نتائج آگئے۔ ظاہر ہے ہمارا پورا پینل بھر پور طریقے سے کامیاب ہوگیا۔ طلبہ نے نہ صرف جیتنے والے امیدواروں کو کندھوں پر بٹھا کر جلوس نکالا بلکہ اس ناچیز کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ پورے کالج میں جشن فتح منایا گیا بلکہ سارا جلوس بعد ازاں ہمارے غریب خانے پر جمع ہوگیا اور سارے ہار پھول ہمارے کمرے میں ٹانگ دیے۔
اب اگر یہاں گرلز ہوسٹل اور طالبات کے کردار کا ذکر کروں تو بے جا نہ ہوگا۔ خاص طور پر ہوسٹل میں رہنے والی ایک طالبہ جو طالبات کی انچارج بھی تھیں۔ اکثر رات کو ہمارے ساتھ پورا پینل گرلز ہوسٹل جاتا اور الیکشن مہم چلاتا۔ بحث مباحثہ بھی ہوتا، طالبات کے ساتھ میٹنگز میں الیکشن سے متعلق معاملات زیر بحث آتے اور آئندہ کی منصوبہ بندی بھی ہوتی۔ خیر یہ تو ایک اضافی بات تھی لیکن ہماری دور بین نگاہوں نے ہماری ساتویں حس کو بیدار کردیا تھا۔ چھٹی حس تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے۔ لیکن ساتویں حس کسی کسی کے پاس ہوتی ہے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ افتخار (صدر یونین) اور طالبات کی انچارج میں کافی ہم آہنگی ہے۔ نظریات اور خیالات کافی ملتے جلتے ہیں۔ ایسے میں نجانے کیوں اللہ نے ہمارے دل میں یہ بات ڈالی کہ اگر یہ دونوں آئندہ عملی زندگی میں بھی ایک ہوجائیں تو اس سے تنظیم و تحریک کے مقاصد کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔ مگر چونکہ یہ معاملات کافی نازک ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم نے کبھی بھی اس کا اشارۃً بھی اظہار نہ کیا۔۔۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ جب ہماری کراچی واپسی ہوگئی۔ سارا میڈیکل کالج ہمیں رخصت کرنے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن آیا۔ سارے لوگ غمگین تھے ہماری آنکھوں میں بھی آنسو تھے کہ ہم پہلے ہی محبتوں کے مارے لوگ ہیں۔۔۔ لیکن جن محبتوں کا بیج ہم وہاں بو آئے تھے اس کا تقاضا تھا کہ جو بھی کراچی آتا سب سے پہلے ہم سے ملنے آتا۔
(جاری ہے)