ایک دلخراش تصویر کا بھونچال

377

کشمیر کے شہر سوپور سے منظر عام پر آنے والی ایک تصویر ہزارہا لفظوں سے بھاری اور دردناک ہے۔ اس تصویر کی اپنی ہی زبان ہے اور اس کے اندر ہی عنوان ہے۔ یہ بشیر احمد خان نامی اپنے پینسٹھ سالہ نانا کی خون آلود لاش پر بیٹھے بے یارو مددگار تین سالہ بچے کی تصویر ہے۔ بچہ اس احساس سے عاری ہے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور کیوں ہوا؟ وہ اپنی توتلی زبان میں اپنا مافی الضمیر بھی پوری طرح بیان کرنے کے قابل نہیں۔ ایک کنٹریکٹر سری نگر میں اپنے ننھے نواسے کو ساتھ لیے گھر سے پچاس کلومیٹر دور سوپور کی طرف چل پڑا۔ سفر اختتام کو پہنچ ہی رہا تھا کہ سوپور کی ایک مسجد پر بھارتی فوجی دھاوا بول رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ مسجد میں کچھ مسلح حریت پسند پناہ لیے ہوئے ہیں۔ شدید فائرنگ کے باعث اس کی تصدیق کرنا مقامی آبادی کے لیے ممکن نہیں تھا۔ اس دوران پینسٹھ سالہ بزرگ کی خون آلود لاش سڑک کے کنارے پڑی ہوئی ملی اور تین سالہ بچہ روتا بلکتا تھا اور فوج اور پولیس اہلکار اس کا دل بہلانے کے لیے کبھی ٹافیوں اور چاکلیٹ کا جھانسہ دے رہے تھے تو کبھی کھلونوں کا بہلاوہ۔ بچے نے اس واقعے کی گواہی یوں دی کہ ’’بڑے ابو کو پولیس نے گاڑی روکنے کا کہا پھر ٹھک ٹھک ٹھک گولیاں ماریں‘‘۔ یہ ایک چشم دید صاف وشفاف دل کی بے ساختہ گواہی ہے۔ بھارتی فو ج کا اصرارہے کہ یہ شخص کراس فائرنگ کی زد میں آکرمارا گیا۔ مقتول کے گھر والوں کا اصرار ہے کہ انہیں پولیس نے گاڑی سے اتار کر مارا اور پھر ایک تصویر بنانے کی خاطر بچے کو لاش کے اوپر بٹھا دیا۔
جس انداز سے یہ تصویر دنیا میں وائرل ہو رہی ہے اس سے لگ رہا ہے کہ یہ تصویر خاصی منصوبہ بندی اور صحافتی حس کے تحت بنائی گئی۔ اس تصویر میں کلک اور مقبول ہوجانے کا پوٹینشل موجود ہے اور یہ تصویر بنانے والے کے ذوق وشوق کو ظاہر کر رہی ہے۔ صرف تصویر ہی نہیں جائے واردات کے ویڈیو کلپس بھی منظر عام پر آئے ہیں اور بچہ پولیس کی گاڑی میں بیٹھ کر روتے ہوئے اپنا نام بتا رہا ہے یہ بھی ویڈیو کلپس میں موجود ہے۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ تصویریں اور ویڈیوز فوج اور پولیس کے لوگوں نے بنوائی ہیں۔ اس تصویر کا مقصد کاروباری بھی ہو سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی فوجی یا ایجنسی کے اہلکار نے تصویر کسی بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو فروخت کرنے کے لیے یہ سارا خونیں ڈراما رچایا ہو۔ یہ بھی بعید نہیں کہ یہ تصویر حریت پسندوں کے خلاف مقامی اور بین الاقوامی رائے بنانے کے لیے بنائی اور ریلیز کی کی گئی ہو جس کا مقصد کشمیر کی مقامی آبادی کو یہ باور کرانا ہے کہ حریت پسند ان کے قاتل اور فوجی ان کے مسیحا ہیں۔ حریت پسند انہیں قتل کرتے ہیں اور فوجی ان کے بچوں کو بچا کر محفوظ مقام پر پہنچاتے ہیں۔ بھارت اس وقت کشمیر میں جس صورت حال کا سامنا کر رہا ہے وہاں اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کچھ عجب نہیں۔ تصویر اور پس ِ تصویر کے ڈرامے کی تحقیقات کون کرے گا؟ ایسے میں جبکہ حالات وہی قاتل وہی منصف کی تصویر بنا رہے ہوں۔
حقیقت میں یہ بوڑھے نانا کی خون آلود لاش پر تین سالہ بچے کی تصویر نہیں بلکہ یہ عالمی ضمیر کی تصویر ہے جو بے گور وکفن لاش سے بھی بدتر حالت کو پہنچ چکا ہے۔ یہ عالمی نظام کی تصویر ہے جو بہت تیزی سے زوال کی طرف لڑھک رہا ہے۔ یہ تصور انسانیت کی تصویر ہے جو اب دامن ِ تار تار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ یہ انصاف اور عدل کے تصورات کی تصویر ہے جو کشمیر اور فلسطین جیسے علاقوں میں عملی طور پر کسی خوان آلود لاشے کی طرح سرِبازار کھلی پڑے ہیں اور وہ مضروب سوسائٹی ناتواں اور مظلوم بچے کی طرح بے بسی کی تصویر بن کر اس لاشے پر بیٹھی حالات کا ماتم کر رہی ہے۔ فلسطین میں ایسی ہی تصویروں نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کو جنم دیا تھا۔ اسامہ نے اپنی ساری فوجی اور سیاسی حکمت عملی کے لیے فلسطین میں صہیونی مظالم کو بنیاد بنا یا تھا اور وہ ناانصافی پر مبنی عالمی نظام سے جا ٹکرائے تھے۔ کشمیر میں بھی ایسی ہی تصویریں ایک ردعمل کو پیدا کررہی ہیں اور یہ ردعمل پی ایچ ڈی اسکالرز کو بندوق اُٹھانے پر مجبور کر رہا ہے۔ آگے چل کر عالمی نظام سے مایوسی اور مظالم کا یہ ردعمل کیا رنگ اور رخ اپنائے گا اس کا کچھ اندازہ نہیں۔
بھارت نے اس خونین ڈرامے کی فلم بندی جن مقاصد کے لیے کی تھی وہ ننھے عدنان کی توتلی زبان اور ٹھک ٹھک ٹھک کی آوازوں نے ناکام بنا دیا۔ بشیر احمد خان کی بیوی فاروقہ بیگم وویمن پولیس اسٹیشن کی ریٹائرڈ انچارج ہیں۔ حالت کرب میں ان کا بھی یہی کہنا تھا کہ ان کے خاوند کو سی آر پی ایف نے قتل کیا۔ بشیر احمد خان کی اس دل دوز تصویر پر اقوام متحدہ کے لبوں کے تالے اس حد کھل گئے کہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس کے ترجمان اسٹیفن ڈرجیرک کو ایک بیان جاری کرکے بھارتی حکومت کو اس واقعے کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی کہنا پڑی کہ بھارت لوگوں کو احتجاج اور مظاہروں کا حق دے۔ سیکرٹری جنرل کے نمائندے نے اس کے لیے ’’رائٹ ٹو ڈیمانسٹریٹ‘‘ یعنی مظاہروں کے حق کی اصطلاح استعمال کی۔ یہ کشمیر میں حق اجتماع آزادی اظہار پر لگی بدترین قدغنوں پر اظہار ناپسندیدگی ہے۔ یہی نہیں گوگل نے اعلان کیا کہ واقعے کے چوبیس گھنٹے بعد بھی یہ تصویر گوگل سرچ میں سرِفہرست رہی۔ دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس تصویر کی حقیقت جاننے کے لیے گوگل کا سہارا لیتے رہے۔ گوگل کے مطابق گزشتہ ماہ چین بھارت کشیدگی کا موضوع گوگل کے صارفین کی سب سے زیادہ تلاش کا محور تھا سوپور واقعے کے بعد یہ موضوع پہلے نمبر پر آیا اور کورونا دوسرے جبکہ چین بھارت کشیدگی تیسرے نمبر پر چلی گئی۔ یوں تصویر جن مقاصد کے لیے یہ فوٹو سیشن ہوا تھا نتائج اس کے قطعی برعکس نکلے اور اب بھارت کو کئی سوالوں اور تبصروں کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔