طالبان کے حملوں سے افغان امن عمل کو خطرات لاحق ہیں، اشرف غنی

71

کابل(مانیٹرنگ ڈیسک)افغان صدر اشرف غنی نے خبردار کیا ہے کہ طالبان کے حملوں اور پرتشدد واقعات سے ملک میں امن عمل خطرات سے دوچار ہے۔اشرف غنی نے طالبان سے امن مذاکرات کے بارے میں عالمی برادری کو تفصیلات بتائیں جہاں فریقین تقریباً دو دہائی سے
جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔افغان حکام اور طالبان بین الافغان مذاکرات کی تیاری کر رہے ہیں جس کا مقصد جنگ زدہ ملک میں پائیدار امن کا قیام ہے اور امریکا، طالبان معاہدے کے تحت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوں گے۔مئی میں طالبان کی جانب سے سیزفائر کی پیشکش کے بعد تشدد میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم حالیہ عرصے میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا جس سے بڑی تعداد میں سیکورٹی اہلکار اور شہری مارے گئے۔ اشرف غنی نے گزشتہ روز تین آن لائن کانفرنس میں سے پہلی کانفرنس کی میزبانی کی جس میں عالمی برادری کو ممکنہ امن مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔انہوں نے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے شرکا کو آن لائن سیشن میں بتایا کہ اگر طالبان لڑنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں تو افغان امن عمل سنگین خطرات سے دوچار ہو جائے گا اور بدقسمتی سے اس وقت پرتشدد واقعات گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔اشرف غنی بقیہ دونوں آن لائن کانفرنسز کا انعقاد بھی رواں ہفتے ہی کریں گے۔حکام نے بتایا کہ امریکا، روس سمیت اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کے حکام بھی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں جبکہ اس کے علاوہ دیگر شریک ممالک میں پاکستان، بھارت، چین، ایران، مصر اور قطر شامل ہیں۔اس سے قبل افغان صدر کے ترجمان نے بڑھتے ہوئے پرتشدد واقعات پر طالبان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔صدیق صدیقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نظر میں امن عمل کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ طالبان سنجیدہ نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت افغانستان نے تشدد میں کمی کے لیے بڑی تعداد میں طالبان قیدیوں کو رہا کیا ہے لیکن پرتشدد واقعات میں کمی واقع نہیں ہوئی۔افغان حکام فروری میں ہوئے معاہدے کے تحت 5 ہزار میں سے 4 ہزار قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں جہاں مذکورہ معاہدے پر عملدرآمد کی صورت میں غیرملکی افواج کے افغانستان سے انخلا کی راہ ہموار ہو گی۔